مضامین

ایران کے فوجی اقدام پر امریکہ خاموش کیوں؟

بقلم سعد اللہ زارعی

امریکہ کے بغیر پائلٹ ڈرون طیارے آر کیو ۴ یا “بلیک ہاک” کی اسلامی جمہوریہ ایران کی سمندری حدود میں داخلے اور وسیع پیمانے پر آبنائے ہرمز سے لے کر چابہار تک جاسوسی کرنے اور فضائی تصاویر بنانے کے بعد سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اسے نشانہ بنا کر تباہ کر دیا۔ یہ ڈرون طیارہ امریکہ کا جدید ترین اور انتہائی مہنگا ڈرون تھا۔ گذشتہ چند دنوں سے یہ واقعہ عالمی میڈیا میں پہلی شہ سرخی بنا ہوا ہے اور اس کے بارے میں گوناگون تجزیے پیش کئے گئے ہیں۔ اسی دوران بعض ذرائع ابلاغ پر یہ گرم بحث بھی چل رہی تھی کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے امریکی فوجی ماہر اولریک فرینک کے بقول امریکہ کی فوجی حیثیت کی دھجیاں بکھیر دینے کے بعد اب امریکی حکومت کا ردعمل کیا ہو گا؟ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

۱)۔ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ ایک دو ماہ کے دوران امریکی حکام ایران کی فوجی صلاحیتوں کی جانچ پرکھ میں مصروف تھے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی ایئر فورس کے کمانڈر جنرل دلاور نے بتایا کہ امریکی طیارے اب تک کئی بار خلیج فارس میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر چکے ہیں۔ ہم انہیں کئی بار وارننگ بھی دے چکے تھے اور وزارت خارجہ کے ذریعے احتجاج کے ساتھ ساتھ انہیں خبردار بھی کر چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہماری وارننگز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے یہ خلاف ورزیاں جاری رکھیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حال ہی میں گرائے جانے والے امریکی ڈرون کو بھی کئی بار خبردار کیا گیا تھا۔ ایک بار ہم نے اپنی حدود میں داخل ہونے والے طیارے کی جانب ہوائی فائرنگ بھی کی جس کا اعتراف خود امریکی حکام نے بھی کیا ہے۔ اس سب کے باوجود جمعرات کے روز کئی بار وارننگ دیے جانے کے باوجود امریکہ کا جدید ڈرون طیارہ ہماری حدود میں داخل ہوا اور ہم اسے مار گرانے پر مجبور ہو گئے۔

گلوبل ہاک نامی جدید ترین امریکی ڈرون جمعرات کی صبح ۱۲ بج کر ۱۴ منٹ پر آبنائے ہرمز سے چابہار کی جانب گشت زنی میں مصروف تھا۔ اس دوران وہ ایران کی فوجی اور اقتصادی تنصیبات کی تصاویر بنا کر خلیج فارس میں امریکی ہیڈکوارٹر ارسال کرتا رہا۔ صبح چار بجے کے بعد چابہار سے واپس آتے ہوئے ایران کی سمندری حدود کے کئی کلومیٹر اندر تک آ گیا جس کے بعد ایران کے “سوم خرداد” نامی ایئر ڈیفنس سسٹم کے ذریعے تباہ کر دیا گیا۔ اس تباہ شدہ ڈرون کا ملبہ ایران کی حدود میں واقع علاقے “راس الشیر” میں پایا گیا ہے۔ ابتدا میں تو امریکی حکام اپنے اس موقف پر اصرار کرتے رہے کہ یہ ڈرون طیارہ بین الاقوامی سمندر کی حدود میں تھا لیکن ایران کی جانب سے ٹھوس ثبوت پیش کئے جانے کے بعد انہیں اپنے اس موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا۔

۲)۔ مذکورہ بالا مطالب سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی کے تناظر میں امریکی حکام بحیرہ اومان کے شمالی حصوں کے بارے میں حساس معلومات حاصل کرنے کیلئے انٹیلی جنس آپریشنز انجام دے کر ایران پر یہ جھوٹا تاثر دینا چاہتے تھے کہ ہم ایران کے خلاف فوجی کاروائی کی تیار کر رہے ہیں تاکہ ایرانی حکام کو مذاکرات کی میز پر آنے کیلئے مجبور کر سکیں۔ ان مذاکرات کا مقصد ایران کو اپنی دفاعی طاقت اور خطے میں اپنی سرگرمیوں میں کمی کرنے پر تیار کرنا ہے۔ امریکی تجزیہ کاروں نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ اگر ایران کے خلاف امریکہ کی فوجی کاروائی میں کوئی جانی نقصان نہ ہوا تو شاید ایران جنگ سے بچنے کیلئے اس کے جواب میں کوئی ردعمل ظاہر نہ کرے اور یوں ہم ایسی کاروائی کو “جنگ اور مذاکرات” پر مبنی اپنی ڈاکٹرائن موثر بنانے کیلئے ایران پر دباو کیلئے بروئے کار لا سکتے ہیں۔ اس طرح ایران کے اندر موجود امریکہ سے مذاکرات کے حامی ٹولے کا پلڑا بھی امریکہ کے خلاف مزاحمت کے حامی ٹولے کے مقابلے میں زیادہ وزنی کیا جا سکتا ہے۔

وائٹ ہاوس میں ایران سے متعلق امور کے ذمہ دار براین ہک کی جانب سے امریکی ڈرون طیارے کو مار گرانے کے بعد بھی ایران سے مذاکرات پر اصرار اسی امر کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران سے تناو کم کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ ایران کو چاہئے کہ وہ ڈپلومیسی کا جواب ڈپلومیسی سے دے۔ حال ہی میں ٹائم میگزین میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انٹرویو شائع ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے: “میں نے ہر گز یہ نہیں کہا کہ ایران کو ۳۔۶۷فیصد یورینیم افزودگی کی سطح کراس کرنے سے روکنے کیلئے فوجی طاقت کا استعمال کروں گا۔ میں کچھ نہیں کہوں گا۔ درحقیقت میں یہ نہیں کہنا چاہتا۔ ایسا فوجی اقدام نامناسب ہو گا۔”

جب ہم ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو امریکی ڈرون طیارے گلوبل ہاک کی جانب سے ایران کی اقتصادی اور فوجی تنصیبات کی جاسوسی کے عمل کے ساتھ رکھتے ہیں اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بار بار وارننگ کے باوجود امریکہ کی جانب سے جاسوسی کا عمل جاری رکھنے پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں کوئی منصوبہ تھا۔ بعض امریکی سیاسی ماہرین نے یہ مشورہ دے رکھا تھا کہ ایران کے خلاف کسی قسم کی جنگ، محدود پیمانے پر فوجی کاروائی یا وارننگ پر مبنی فوجی اقدام کے بغیر ایرانی حکام کو یہ پیغام دیا جائے کہ مذاکرات سے امتناع جنگ کو خوش آمدید کہنے کے مترادف ہے۔

۳)۔ ایران کے فوجی سربراہان نے امریکہ کے اس ارادے کو بھی بھانپ لیا تھا اور یہ توقع کر رہے تھے کہ ہو سکتا ہے امریکہ ایسی فوجی کاروائی کرے جس میں کوئی جانی نقصان نہ ہو اور کوئی اہم عمارت بھی تباہ نہ کی جائے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بھی تقریباً دو ماہ پہلے کہا تھا کہ دشمن نے ہمارے خلاف اقتصادی اور نفسیاتی جنگ شروع کر رکھی ہے اور جاسوسی سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں اور اس میدان میں اپنی پوری طاقت بروئے کار لا رہا ہے۔ انہوں نے امریکہ کی جانب سے محدود پیمانے پر فوجی کاروائی کے امکان کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ ہماری مسلح افواج پوری طرح تیار ہیں۔ ایران کے فوجی ماہرین کی جانب سے سامنے آنے والے تجزیوں میں کہا گیا تھا کہ حتی امریکہ کی محدود فوجی کاروائی کو بھی جواب کے بغیر نہیں چھوڑنا چاہئے کیونکہ جوابی کاروائی نہ کرنے کی صورت میں امریکہ میں زیادہ بڑا فوجی اقدام انجام دینے کی جرات پیدا ہو جائے گی۔ لہذا سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اور ایران کی مسلح افواج دشمن کی جانب سے کسی قسم کے فوجی اقدام کا بھرپور جواب دینے کیلئے مکمل طور پر تیار تھیں۔

جمعرات کے روز ایران نے جنوب میں واقع اپنی حساس تنصیبات کی چار گھنٹے جاسوسی کرنے کے بعد امریکہ کا ڈرون طیارہ مار گرایا جبکہ امریکی ایران کی جانب سے ایسے اقدام کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ اس واقعے نے نہ صرف امریکی حکام اور ماہرین کے تجزیات غلط ہونے سے پردہ اٹھا دیا بلکہ صورتحال بالکل برعکس ہو گئی۔ امریکی حکام اور ماہرین اپنے تجزیات میں اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف محدود فوجی کاروائی کا جوابی ردعمل سامنے نہیں آئے گا لیکن اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ امریکہ ایران کی جانب سے محدود فوجی اقدام کے مقابلے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ ایران کے فوجی ماہرین کا خیال یہ تھا کہ اگر امریکہ اس بات کا یقین کر لے کہ ایران اس کے ہر قسم کے فوجی اقدام کا موثر اور منہ توڑ جواب دے گا تو وہ کسی قسم کی فوجی کاروائی کرنے سے گریز کرے گا۔ اب امریکہ کی خاموشی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکی حکام اپنے فوجی ردعمل کے جواب میں ایران کی دوبارہ کاروائی کو بھی یقینی سمجھتے ہیں۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button