امریکی کانگریس جنگ یمن میں امریکی مداخلت بند کرنے کا مطالبہ
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) امریکی اراکین کانگریس نے یمن میں انسانی بحران شدید ہونے کے بعد، سعودی اتحاد کی حمایت بند کرانے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان نے جمعرات کی شام کی ایک بل کی منظوری دی ہے جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جنگ یمن میں سعودی اتحاد کے حملوں کی عسکری حمایت بند کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ ایوان کے دوسو چالیس ارکان نے اس بل حمایت میں جبکہ ایک سو پچاسی نے مخالفت میں ووٹ دیے۔
اس بل کے تحت صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی حکومت کو ایمرجنسی قوانین سے استفادہ کرتے ہوئے یمن مخالف اتحاد کو اسلحے کی فروخت کا حق حاصل نہیں رہا۔
امریکی ایوان نمائندگان جمعے کے روز ایک اور بل پر رائے شماری کرانے والا ہے جس کے تحت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران پر حملے سے روک دیا جائے گا۔ اس بل کے حامیوں کو ایوان سے منظوری کی پوری امید ہے۔منظوری کی صورت میں دونوں بلوں کو سن دوہزار انیس کے فوجی بجٹ میں بطور ضمیمہ شامل کیا جائے گا۔
امریکی سینیٹ نے بھی چند ہفتے قتل جنگ یمن کے حوالے سے ایسے بل کی منظوری دی تھی۔دونوں بلوں کے میں پائے جانے والے تضادات کو دور کرنے کا فیصلہ متعلقہ کمیٹی میں کیا جائے گا جس کے بعدا ایوان سے ان کی منظوری لی جائے گی۔
ٹرمپ نے سترہ اپریل دوہزار انیس کو کانگریس کے ایک بل کو ویٹو کردیا تھا جس میں حکومت سے جنگ یمن میں سعودی اتحاد کی حمایت بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
انہوں نے اس بل کو امریکی آئین کے تحت حاصل اپنے اختیارات کے خلاف غیر ضروری اور خطرناک کوشش قرار دیا تھا۔اگلے مرحلے میں اس بل پر دو مئی کو امریکی سینیٹ سے جس میں ری پبلیکن کی اکثریت ہے، ٹرمپ کے ویٹو کے خلاف لازمی ووٹ حاصل نہیں ہوسکے تھے۔
ٹرمپ کے ویٹو کو مسترد کرنے کے لیے کم سے کم ایوان کی دو تہائی اکثریت یعنی سڑسٹھ ارکان کی حمایت درکار تھی لیکن صرف تریپن سینیٹروں نے اس کی حمایت کی ہے۔
سعودی عرب، خطے میں واشنگٹن کا اسٹرٹیجک اور اقتصادی شریک اور امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار شمار ہوتا ہے۔متحدہ عرب امارات بھی امریکہ کا اہم علاقائی پارٹنر ہے اور اربوں ڈالر سالانہ امریکی ہتھیار خریدتا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے گا تو ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات کی سطح میں کمی کے لیے آمادہ نہیں ہے ۔
لوبلاگ ویب سائٹ پر سیاسی امور کے ماہر ولیم ہارٹنگ کے شائع کردہ ایک مقالے کے مطابق جنگ یمن کے آغاز سے اب تک اڑسٹھ ارب ڈالر کے ہتھیار دونوں ملکوں کو فروخت کیے گئے ہیں۔
درایں اثنا ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مغربی ملکوں کو ہتھیاروں کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع پر توجہ دینے کے بجائے یمن میں لاکھوں عام شہریوں کی زندگیوں اور اپنے قانونی وعدوں پر توجہ دینا چاہیے۔