اسلامی مزاحمتی بلاک اور امریکہ کی پسپائی
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)
تحریر: ہادی محمدی
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران سیکورٹی، سیاسی، جوہری، علاقائی اور فوجی میدانوں میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو مل کر خطے اور دنیا کے حالات کو نئی سمت و سو دے رہے ہیں۔ ان واقعات کا پہلا اثر ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی پوری علاقائی اور بین الاقوامی ٹیم کی ناکامی، ذلت اور رسوائی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ یورپی ممالک کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور نامعقول موقف کے مقابلے میں جوہری سرگرمیوں سے متعلق ایران کی جانب سے دوسرے قدم کے آغاز کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اور یورپی حکام کی بوکھلاہٹ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کیونکہ وہ ایران سے جوہری معاہدے کے بارے میں کسی منطقی موقف اور رویے سے برخوردار نہیں ہیں لہذا ایران کی جانب سے ان کی بدعہدی کے خلاف جوابی اقدامات جاری رہنے کو اپنی پالیسیوں میں ناکامی کا باعث قرار دیتے ہیں۔ اب انہوں نے سفارتی میدان میں ایران سے مقابلہ کرنے کیلئے فرانس کے وزیراعظم میکرون کا انتخاب کیا ہے جو ایک بدنام کھلاڑی ہیں۔ وہ ایران کو فوجی کاروائی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
دوسری طرف حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے حال ہی میں ایک طویل تقریر کی ہے جس میں انہوں نے ایران کے خلاف کسی قسم کی فوجی کاروائی کے بھیانک نتائج سے خبردار کیا ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ایران کے خلاف کسی قسم کی فوجی جارحیت کے ردعمل میں پہلے مرحلے پر جن دو حکومتوں کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑے گا وہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور آل سعود رژیم ہو گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایران پر حملے کی صورت میں اسلامی مزاحمتی بلاک خاموش تماشائی نہیں بنے گا۔ ان کے اس بیان نے اسرائیلی حکام اور ان کے مغربی حامیوں کو شدید خوف اور وحشت کا شکار کر دیا ہے۔ یمن کے خلاف سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد کی فوجی جارحیت بند گلی کا شکار ہو چکی ہے۔ یمن کی مسلح افواج نے کچھ عرصے سے جدید ڈرون طیاروں اور میزائلوں کا استعمال تیز کر دیا ہے جس کے باعث سعودی اتحاد بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکا ہے اور اب متحدہ عرب امارات کی جانب سے یہ اتحاد چھوڑنے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فوجی اتحاد کی اندرونی مشکلات اور کمزوریاں عیاں ہوتی جا رہی ہیں۔
مزید برآں، عدن اور جنوبی یمن میں غیرملکی جارح قوتوں کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس وقت امریکہ اور برطانیہ یمن میں شکست جیسی تلخ حقیقت سے روبرو ہو چکے ہیں۔ اگرچہ امریکہ نے سعودی عرب سے وعدہ کیا ہے کہ وہ آل سعود رژیم کی حفاظت کیلئے اس ملک میں موجود اپنے فوجی اڈوں میں مزید فوجی بھیجے گا لیکن اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے نمائندے نے ناگوار حقائق کا اعتراف کرتے ہوئے یمن میں صلح کرنے اور ایران سے مذاکرات کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے مذاکرات کی یہ پیشکش ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش سے ملتی جلتی ہے جو خطے میں اپنے دہشت گردانہ اور جنگ پر مبنی اہداف مذاکرات کے ذریعے حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔ اگر سعودی عرب یمن میں حقیقی امن کا خواہاں ہے تو کافی ہے وہ یمن کے مظلوم عوام کے خلاف جاری محاصرہ ختم کر دے اور یمنی شہریوں کا قتل عام اور یمن کا انفرااسٹرکچر تباہ کرنا بند کر دے۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے مغربی اتحادی خطے اور دنیا میں تناو کم کرنے اور امن قائم کرنے کے خواہاں ہیں تو اس کیلئے لمبے چوڑے مذاکرات کی ضرورت نہیں بلکہ عالمی قوانین کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ جارحانہ پالیسیاں ترک کر دینا اور مختلف قسم کی دہشت گردی روک دینا، اشتعال انگیز اقدامات انجام نہ دینا اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا ہی اس مقصد کے حصول کیلئے کافی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکہ میں طاقت کا سیٹ اپ لاقانونیت، بدامنی پھیلانے، جھوٹے پروپیگنڈے، جارحیت، لوٹ مار، بدمعاشی اور امریکی اور دنیا کے دیگر عوام کی توہین اور تحقیر کا مظہر ہے۔ ایران کی جانب سے مزاحمت پر مبنی حکمت عملی ایک مستحکم پالیسی ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اپنائی گئی ہے۔ امریکہ نہ صرف اپنے اتحادیوں کی حمایت کے قابل نہیں رہا بلکہ انہیں لوٹ کھانے کے بہانے تلاش کرتا رہتا ہے۔ عراق، شام، یمن، خلیج فارس، آبنائے ہرمز اور آبنائے باب المندب میں آنے والے دن ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے انتہائی مشکل ثابت ہوں گے۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ خطے میں تناو کی شدت بڑھانے اور بدمعاشی پر مبنی پالیسی پر مصر رہتے ہیں تو اس کا نقصان انہیں خود اٹھانا پڑے گا اور سینچری ڈیل اور اس جیسی دیگر ڈرامہ بازیاں اسرائیلی حکام کی بے چینی اور خوف دور کرنے کیلئے کافی نہیں ہوں گے۔