ندیم رضا سرور کی مرثیہ گوئی کے 40 سال
صرف برصغیر کے اہل تشیع ہی نہیں بلکہ اہلسنت بھی ندیم سرور کے نوحے پسند کرتے ہیں
تحریر: توقیر کھرل
دھندلاتی یادوں میں بچپن کے محرم کی بہت سی یادوں میں ندیم سرور کا نوحہ”نہ رو زینب نہ رو” کا البم ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ یوٹیوب تو دور حاضر کی سہولت ہے، اُس دور میں کیسٹ اور وی سی آر نوحے سننے اور دیکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ محرم کی سات تاریخ کو ندیم سرور کے البم کا انتطار ہوا کرتا تھا، یہ انتطار آج بھی ویسا ہی ہے۔ مرثیہ گوئی میں ندیم رضا سرور کو 40 سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن نوحوں کی تاثیر اور پرسوز انداز میں وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی اضافہ ہوا ہے۔ اور بقول ندیم سرور یہ نسل یہی نوحے سنتے سنتے جوان ہوگئی اور فرش عزا پہ ہماری نوکری جاری ہے۔ ندیم سرور کی نوحہ خوانی کی سب سے منفرد بات یہ بھی ہے کہ صرف برصغیر کے اہل تشیع ہی نہیں بلکہ اہلسنت بھی نوحے پسند کرتے ہیں۔ کسی بھی اہلسنت بھائی کو اگر کوئی نوحہ یاد ہے تو "نہ رو زینب نہ رو” ہے یا وہ ندیم سرور کو اس نوحہ کی نسبت سے جانتا ہوگا۔
ندیم رضا سرور نے ہر دور میں نوحوں کی ویڈیو بنانے میں میڈیا انڈسٹری کے تقاضوں کے مطابق جدید ذرائع کا استعمال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلام، پرسوز آواز کے ساتھ ساتھ ویڈیو بھی متوجہ کرتی ہے۔ ندیم سرور اپنی والد ہی سے ہمیشہ ایک ہی دعا کی فرمائش کرتے رہے کہ دعا کریں میری آواز میں سوز زیادہ سے زیادہ بہتر ہو، شاید یہی وجہ ہے دن بھر کئی جگہوں پر نوحہ خوانی کرنے کے باجود بھی ندیم سرور کا گلا بیٹھ بھی جائے تو سوز باقی رہتا ہے۔ ندیم سرور کی آڈیئنس ایک مسلک یا مکتب کے افراد نہیں، بلکہ دنیا بھر کے حسینی ہوتے ہیں۔ اسی لئے ان کی انجمن ذوالفقار حیدری کا ٹائٹل "ہم حسینی ہیں دنیا میں چھائے ہوئے” رہا ہے اسی لئے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ندیم سرور کی مرثیہ گوئی کی آواز گونجتی ہے۔ ابتدا میں جب پاکستان میں فرقہ واریت عروج پہ تھی تو ندیم کے نوحوں میں جوش اور آل رضا کے مرثیوں کی طرح مزاحمت کا استعارہ استعمال کیا ،جس میں ریحان اعظمی اور ندیم سرور کے دونوں کے خیالات شامل تھے۔ غازی عباس کون ہیں اور ان سے کیسے توسل کرنا ہے، یہ سب ندیم سرور کی پرسوز آواز اور ڈاکٹر ریحان اعظمی کے مثل کلام کی مدد سے نئی نسل میں منتقل ہوا ۔
ندیم رضا سرور، ریحان اعظمی کے لکھے ہوئے نوحے چار دہائیوں سے پڑھتے آرہے ہیں، یہ ریحان اعظمی کون ہیں؟ کہیں آپ بھی بیسیوں افراد کی طرح ندیم اور ریحان کو ایک ہی شخص نہ سمجھتے ہوں۔ شاعر، صحافی اور ڈاکٹر ریحان اعظمی کے بارے مولانا حسن ظفر نقوی کے الفاظ ہمیشہ یاد رہتے ہیں کہ "حیران ہوں کہ کیا کوئی کمپیوٹر اس کے دماغ میں نصب ہے جو کھٹا کھٹ چلتا رہتا ہے، کوئی موضوع ہو کوئی عنوان ہو ریحان کو اشعار کہنے میں مہلت درکار نہیں ہوتی”۔ ریحان اعظمی اپنے کلام کے بارے رقم طراز ہیں، اپنے بچپن کے دوست شہید سبط جعفر شہید سے بہت کچھ سیکھا اور ان کو ہی استاد مانتا ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ریحان اعظمی کو مرثیہ نگاری میں استاد جعفر شہید ہی لائے، جس پہ شہید سبط جعفر ہمیشہ فخر کرتے تھے۔ ندیم سرور اور ریحان اعظمی کا ساتھ 1986ء سے ہے اور یہ ساتھ تاحال ہے۔ ریحان اعظمی اپنی کتاب ایک آنسو میں کربلا میں رقم طراز ہیں کہ "ندیم سرور 1986ء میں میرے پاس آئے اور دو نوحے لکھ دیئے اور اس کے بعد سرور نے مکمل طور پر مجھ پر اکتفا کرلیا، یہی وجہ ہے کہ آج بھی میری وجہ سے سرور اور سرور کی وجہ سے میں، دنیا جہاں بھی اردو نوحہ سنا جاتا ہے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ "یہ اکتفا صرف ندیم سرور کا ہی نہیں بلکہ سامعین نے صرف ندیم کی آواز میں ریحان کے کلام کو پسندیدگی کا اظہا رکیا۔
ندیم سرور کہتے ہیں کہ "اب تو یہ حالت ہے کہ لوگ مجھ سے علاوہ ریحان اعظمی کے کسی دوسرے کا کلام سننا ہی پسند نہیں کرتے، میری آواز اور ریحان کا کلام ایک جسم دو قالب کی مانند ہیں، شاید اب کسی اور کا کلام پڑھ کر مطمئن بھی نہیں ہو سکتا”۔ ندیم سرور کو ویڈیو اور آڈیو کے علاوہ حاضرین کے سامنے سننے والے اس بات کی گواہی دیں گے ان کے پڑھنے کا انداز سب سے نرالا ہوتا ہے، میر انیس جیسے سننے والوں کو اپنی گرفت میں لیتے تھے، ندیم سرور ممبر پہ آنے سے لیکر آخر پہ نعرہ حیدری تک سامعین کو اپنے حصار میں لیکر انہیں عشق حسینی کا جام پلا کر ہی دم لیتے ہیں۔ ندیم سرور اپنی گفتگو میں صلہ رحمی اور اتحاد کا درس دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ساتھ ہونے والے کچھ معجزات کا بھی ذکر کرتے ہیں جو سامعین کے دل پہ گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ ندیم سرور نے صرف اردو ہی نہیں پنجابی، فارسی پشتو میں بےمثل مرثیہ پڑھے اور اپنی اولاد سمیت ہر مسلک، طبقہ، زبان اور علاقے کے عزادارن حسین تک امام عالی مقام کے عشق کو بخوبی منتقل کیا۔ 40 سال میں ندیم کے پڑھے ہوئے تمام نوحے سالوں بعد بھی غم حسین کی نسبت سے تازہ رہیں گے، دعا ہے ندیم رضا سرور کی آواز اور ریحان اعظمی کے کلام سے عزاداری کی سفارت آئندہ نسلوں میں عشق حسینی کی شکل میں منتقل ہوتی رہے۔