سعودی عرب میں قید حماس رہنماؤں سے یکجہتی کی مہم زور پکڑ گئی
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے سعودی عرب میں جبری گم شدہ رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے سوشل میڈیا پر مہم شروع کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ’’الخضری فریڈؐ ہیش ٹیگ‘‘ کے عنوان سے مائیکرو بلاگنگ ویب سائیٹ ’’ٹویٹر‘‘ پر جاری مہم سماجی کارکن بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
یہ مہم اس وقت شروع کی گئی جب یہ انکشاف ہوا کہ حماس کے ایک دیرینہ رہنما اور 30 سال سے سعودی عرب میں رہائش پذیر محمد الخضری کو پانچ ماہ قبل حراست میں لے لیا گیا تھا۔
اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) نے پیر کی شام انکشاف کیا کہ سعودی حکام نے 81 سالہ ڈاکٹر محمد الخضری کو پانچ ماہ قبل حراست میں لے لیا تھا۔ وہ جو 30 سال سے جدہ شہر میں مقیم تھے۔ حماس نے ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے عالمی برادری سے بھی سعودی عرب پرحماس رہنماؤں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر’’ # الخضری فری‘‘ کے لیبل کے ساتھ جاری مہم میں کہا گیا ہے کہ الخضری اور دیگر حماس رہنماؤں کو امریکہ اور صیہونیوں کو خوش کرنے کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔
تجزیہ نگار ترکی شلہوب نے لکھا کہ سعودی حکومت نے حماس کے ایک ممبر ڈاکٹر محمد صالح الخضری کو جو 30 سال سے سعودی عرب میں مقیم ہیں کو پانچ ماہ سے قید میں ڈال رکھا ہے۔ ان کی عمر اس وقت 81 سال سے زیادہ ہے۔ وہ خود اس وقت ایک ’’لاعلاج بیماری‘‘ میں مبتلا ہیں۔ وہ دو دہائیوں سے حماس کے سعودی حکومت کے ساتھ تعلقات کے انتظام کے ذمہ دار تھے۔
کارکن ادھم ابوسلمیہ نے بتایا کہ سعودی عرب نے نہ صرف ڈاکٹر الخضری کو حراست میں لیا بلکہ ان کے ایک بیٹے کو بھی سعودی عرب میں قید کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دسیوں فلسطینیوں کو بغیر کسی جرم یا الزام کے حراست میں لینے کے بعد غائب کردیا گیا ہے۔
مصنف محمد المدہون نے کہا کہ حماس کے بیان کا اجراء شیخ الخضری کی رہائی کے لئے سفارتی کوششوں اور ثالثی کی ناکامی کے بعد ہوا ہے۔
گذشتہ جمعہ کو انسانی حقوق کی ایک عالمی تنظیم یورو ۔ مڈل ایسٹ آبزرویٹری برائے ہیومن رائٹس نےانکشاف کیا تھا کہ سعودی حکومت نے درجنوں فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا۔
انسانی حقوق گروپ کی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق کہا گیا ہے کہ وہ لاپتہ کیے گئے تمام افراد کو فوری طور پر رہا کرے، اگر ان کے خلاف کسی جرم میں ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہے تو انہیں عدالت میں پیش کرکے ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے۔
جنیوا میں قائم ’’یورو مڈل ایسٹ آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘‘ نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی قیدیوں کی تعداد کے لئے قطعی اعدادوشمار نہیں دے سکتا ہے ، لیکن اس نے قریب 60 افراد کے نام موصول کیے ہیں ، جبکہ سعودی عرب میں فلسطینی برادری کے اندر تخمینے کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
انسانی حقوق گروپ نے وضاحت کی کہ 11 فلسطینی کنبوں کی شہادتیں حاصل کی ہیں کیں جن کے بچوں کو حالیہ مہینوں میں سعودی عرب کے قیام یا دورے کے دوران گرفتار کیا گیا یا جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا۔ ان میں طلباء ، رہائشی ، ماہرین تعلیم اور تاجر شامل ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ سعودی حکام نے انہیں بغیر کسی الزام کے بیرونی دنیا سےغائب کردیا گیا اور انہیں مجاز اتھارٹی (پبلک پراسیکیوشن) کے سامنے نہیں لایا گیا۔ انہیں ان کے لواحقین سے رابطہ کرنے یا اپنے وکیلوں سے بات چیت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔