گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے سے پاکستان کا موقف مضبوط ہوگا
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) شیعہ علماءکونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستا ن محل وقوع کے اعتبار سے تاریخی حیثیت کا حامل ہے اوریہ خطہ پاکستان کے مستقبل ، سی پیک اورملکی ترقی کادارومدار میں اہم کردار ادا کرنے جارہاہے۔
انہوں نے کہاکہ جس طرح خطہ کی عوام نے بڑی دلیری کےساتھ جنگ لڑتے ہوئے انڈیا کی فوجوں کو شکست دے کرگلگت کو آزاد کرواکر پاکستان سے الحاق کیا اس کی نظیر نہیں ملتی ۔
انہوں نے کہاکہ گلگت بلتستان کی پُرامن ،دلیر اور پاکستان سے محبت کر نےوالی قوم ہے جو ایک طویل مدت ( 71سال) سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتی نظر آئی اور پاکستان سے محبت ، وفادار ی و صبر و تحمل کا پھل گلگت بلتستان کی عوام کو اس صورت میں ملا کہ پوری دنیا کی نظریں گلگت بلتستان پر ہی مرکوز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ خطہ گلگت بلتستان ملک کی ضرورت بن چکا ہے اور پوری دنیا کے سامنے اسکی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔ گلگت بلتستان کا خطہ ملک کی ترقی کا ضامن سمیت ملک کی اہم اکائی بن چکا ہے۔
علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ یکم نومبرگلگت بلتستان کی آزادی کے دن ہے اور یہ سب کو بخوبی علم ہے کہ گلگت بلتستان کو حکومت برطانیہ نے مہاراجہ کشمیر سے 1935ءمیں پٹہ پر خریدا تھا لیکن جب ہندوستان کی تقسیم ہو نے لگی اور ایک عظیم مملکت اسلام کے نام پر وجود میں آنے لگی تو ہندوستان کے طول و عرض میں ہندو، سکھ د مسلم فسادات شروع ہوگئے اور لاکھوں قربانیوں کے بعد اسلام کے نام پر الگ ایک ملک پاکستان معرض وجود میں آیا تو برطانیہ نے پٹہ کی معیاد ختم ہو نے سے قبل ہی یہ پورا علاقہ جسمیں جموں ،کشمیر اور گلگت شامل تھا کو دوبارہ مہاراجہ کو واپس کردیا جس سے اس خطے کے مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی تھی۔
ان کا مزیدکہنا تھاکہ 5اگست1947ءکو تقسیم برصغیر پاک و ہند کے ساتھ ہی ہندو مسلم فسادات پوری شدت کے ساتھ اُٹھے اور اگر اب مہاراجہ انڈیا سے الحاق کرتا تو اسے مسلمانوں کا 77فیصد کااکثریتی آبادی کی بھر پور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ۔اس کی ریاست کا صوبہ جموں بھی فساد کی لپیٹ میں آگیا تھااور اس وقت تینوں صوبوں والی ریاست میں بے چینی پھیل گئی تھی ۔ اس نازک مرحلے پر ریاستی فوج کے انقلابی مسلمان افسر ،صوبیدار و جمعدار و عہدیداران نے جو قائدانہ صلاحیتوں کے مالک اور جذبہ اسلامی سے سرشار تھے ،سرجوڑا،اور ایک خفیہ انقلابی کونسل قائم کی،میجر مرزا حسن خان ملٹری کراس اس کونسل کے سربراہ مقرر ہوئے اور انہوں نے معاہدہ قائمہ کی غیر موافق صورت میں چلے جانے ،یعنی مہاراجہ کے انڈیا کی طرف جانے کی صور ت میں علم بغاوت کر نے اور پوری ریاست کو قبضے میں لے کر اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ کر نے کی ٹھانی ۔
انہوں نے کہاکہ یکم نومبر 1947ءانقلاب کی کامیابی ڈوگرہ فوج کی تاریخی شکست اور علاقہ آزاد کر انے کے بعد میر آف ہنزہ و میر آف نگر کے الحاق نامے 1نومبر 1947ءکو گلگت میں عبوری ،اسلا می جمہوریہ گلگت کا قیام ،گلگت کی قیم و جدید تاریخ میں لاثانی و لافانی سیاسی اقدام تھا ۔گلگت کی آزادی کےلئے خطہ کی عوام نے بڑی دلیری کےساتھ جنگ لڑتے ہوئے انڈیا کی فوجوں کو شکست دے کرگلگت کو آزاد کرواکر پاکستان سے الحاق کیا لیکن سوال یہ ہے کہ گلگت کی بہادر عوام کی آزادی و قربانیوں کاسلسلہ پاکستان کیسے دے رہاہے ؟
انہوں نے کہا کہ ملکی و بین الاقوامی تناظر میں گلگت کی عوامی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخی فیصلے وقت کی ضرورت ہے ۔موجودہ گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دئےے جانے سے پاکستان کا موقف کمزور نہیں بلکہ زیادہ مضبوط ہو گا ۔یکم نومبر 1947ءانقلاب کی کامیابی ڈوگرہ فوج کی تاریخی شکست اور علاقہ آزاد کر انے کے بعد میر آف ہنزہ و میر آف نگر کے الحاق نامے 1نومبر 1947ءکو گلگت میں عبوری ،اسلا می جمہوریہ گلگت کا قیام ،گلگت کی قیم و جدید تاریخ میں لاثانی و لافانی سیاسی اقدام تھا ۔
آخرمیں علامہ ساجد نقوی کا کہنا تھاکہ گلگت بلتستان کی عوام کے مطالبات کو پورا کیا جائے اور گلگت بلتستان کی عوام کی قربانیوں کے سامنے کھتے ہوئے ان کوآئینی حقوق دئیے جائیں اور گلگت بلتستان کو ملک کا پانچوں صوبہ بنایا جائے نیز گلگت بلتستان کی عوام کو سینٹ اور پارلیمنٹ میں بھی نمائندگی دی جائے ۔