سعودی فوجی کا امریکی بحری اڈے پر حملہ، 3 امریکی ہلاک
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد ایک اور سعودی شہری نے امریکہ میں دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق امریکہ میں زیرتربیت سعودی فوجی سعید الشمرانی نے جمعے کے روز پینساکولا نامی امریکی نیول بیس میں فائرنگ کرکے تین افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اس حملے میں آٹھ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
الشمرانی نے اس دہشت گردانہ اقدام سے قبل ایک ٹوئیٹ بھی کیا جس میں لکھا تھا کہ میں شر کا مخالف ہوں اور مجموعی طور پر امریکہ شر کا مرکز بن گیا ہے۔
سعید الشمرانی نے اس ٹوئیٹ میں امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی تھی کہ میں اس لیے تمہارا مخالف نہیں ہوں کہ تم امریکی ہو بلکہ میں تمہاری من مانی کی وجہ سے متنفر ہوں۔
میں تم سے متنفر ہوں کیونکہ تم لوگ ہر روز نہ صرف مسلمانوں بلکہ انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی حمایت کرتے ہو، انہیں پیسہ دیتے ہو تا کہ وہ ان جرائم کا ارتکاب کریں۔
البتہ یہ پہلی بار نہیں جب کسی سعودی شہری نے امریکی سرزمین پر دہشت گردانہ کارروائی کی ہو۔گیارہ ستمبر دوہزار ایک کی صبح پندرہ سعودی شہریوں نے چار دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر چار مسافر طیارے اغوا کیے اور امریکی تاریخ کا المناک ترین سانحہ رقم کیا تھا۔
ان سعودی شہریوں نے نیویارک میں عالمی تجارتی مرکز کے جڑواں ٹاوروں اور واشنگٹن میں پینٹاگون کی عمارت کو نشانہ بنایا تھا جس میں تین ہزار کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔
گیارہ ستمبر کے سانحہ نے، جسے سات دسمبر انیس سو اکتالیس کو پرل ہاربر پر جاپانیوں کے حملے جیسا سنگین حملہ قرار دیا جاتا ہے، مشرق وسطی کو جنگ اور تباہی سے دوچار کردیا اور امریکہ پر سعودی شہریوں کے حملے کا تاوان امریکی انتقام کا نشانہ بننے والے لاکھوں بے گناہ افغانی اور عراقی شہریوں کو چکانا پڑا ہے۔
ان حقائق کے باوجود، گیارہ ستمبر کے واقعے میں سعودی شہریوں کی مشارکت کا حصہ سعودی حکومت کو سیاسی، فوجی امداد میں اضافے اور خطے میں جنگوں میں حمایت کی صورت میں دیا گیا۔اگرچہ گیارہ ستمبر کے واقعے نے اندرون امریکہ سعودی مخالف جذبات میں بے پناہ اضافہ کردیا تھا لیکن امریکی سیاستدانوں نے سعودی تیل اور سعودی شاہی خاندان کی افسانوی دولت کے لالچ میں اس ملک میں پنپنے والے دہشت گردانہ نظریات پر آنکھیں بند رکھی ہیں۔
دوعشروں کی اسی ڈھیل کے نتجہ میں آج ایک بار پھر امریکی شہریوں کی زندگیاں بعض دوسرے سعودی شہریوں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے نشانہ پر ہیں۔ حالانکہ امریکہ کی موجودہ اور سابقہ حکومتیں تاحال سعودی حکومت کی ہر طرح کی حمایت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتیں۔
اس کا واضح نمونہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے ریاض کا انتخاب کیا اور ایک سو دس ارب ڈالر کے اسلحے کی فروخت سمیت چار سو پچاس ارب ڈالر مالیت کے معاہدوں پر دستخط کیے۔
علاوہ ازیں جب سعودی دربار کے مخالف صحافی، جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے بعد، ریاض پر عالمی دباؤ میں بے تحاشہ اضافہ ہوا تو ٹرمپ نے خود مداخلت کرتے ہوئے کانگریس میں سعودی حکومت کے خلاف بل پاس کرنے کی اجازت نہیں دی۔
موجودہ امریکی صدر تو امریکہ کے لیے سعودی دولت کی ضرورت کا تواتر کے ساتھ ذکر کر چکے ہیں ۔ یہاں تک کہ انہوں نے سعودی عرب کو دودھ دینے والی گائے کا لقب بھی دے دیا ہے۔اس پس منظر میں بعید معلوم ہوتا ہے کہ امریکی سرزمین پر اور امریکی نیول بیس کے اندر سعودی شہری کی فائرنگ کا واشنگٹن اورسعودی دربار کے تعلقات پر کوئی اثر پڑے گا۔
بہرحال یہ امریکی شہری ہیں جنہیں پچھلے بیس برس سے سعودی عرب کی انتہا پسندانہ اور متشدد سوچ رکھنے والی حکومت کی وجہ سے سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔