نیول ڈرونز، ایرانی دفاعی تکنیک میں اہم پیشرفت کی علامت ہیں
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) اسرائیلی فوج کے ساتھ منسلک عسکری سائنس کے ایک الیکٹرانک مجلے نے ایرانی انجینیئرز کی طرف سے تازہ تیار کئے گئے 2 ڈرون طیاروں کے بارے میں اپنی ایک تحلیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایران کی طرف سے ان 2 ڈرون طیاروں کو جو اب ایرانی نیول فورسز کے دستِ راست کی حیثیت رکھتے ہیں، اس کی رونمائی ایرانی دفاعی تکنیک میں اہم پیشرفت کی علامت ہے کیونکہ اب ایرانی نیول فورسز نے لمبے فاصلے، حتی بحیرۂ روم، تک امریکی تھریٹ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کر لی ہے۔
صیہونی ویب سائٹ ’’اسرائیل ڈیفنس‘‘ اس حوالے سے لکھتی ہے کہ ایران نے انہی دنوں اپنے 2 نئے ڈرون طیارے فوج اور سپاہِ پاسداران کی نیول فورسز کے حوالے کئے ہیں جن میں سے ایک ’’سیمرغ‘‘ ہے جس کا افتتاح دسمبر کے شروع میں ہی ایرانی نیول چیف ایڈمرل حسین خانزادہ کے ہاتھوں کیا گیا تھا۔ اس مجلے میں ایرانی ڈرون سیمرغ کا اسرائیلی ڈرون ھرمس-450 کیساتھ موازنہ کرنے کے بعد لکھا گیا ہے کہ سیمرغ ایرانی ڈرون طیارہ شاھد-129 کا ہی نیول ورژن ہے۔
واضح رہے کہ شاھد-129 پچھلے کئی سالوں سے ایرانی انقلابی گارڈز سپاہِ پاسداران کی فضائیہ میں خدمات انجام دے رہا ہے جو 24 گھنٹے کی مسلسل پرواز، 1700 کلومیٹر کے رینج اور 24 ہزار فیٹ کی بلندی تک جانے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ ایرانی نیول فورسز میں اسکی خدمات سمندری حدود اور ساحل سے دور موجود کشتیوں کی نگرانی پر مشتمل ہیں۔
اس اسرائیلی ویب سائٹ کے مطابق ایران کا ایک اور تازہ تیار کیا گیا سمندری ڈرون طیارہ پلیکان-2 جس میں 4 انجن اور 5 پروپیلر موجود ہیں، بحری بیڑے کے عرشے سے براہ راست پرواز کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے اور روشنی کے سنسرز کیساتھ ساتھ متعدد دوسرے سنسرز کا حامل ہے بھی جسکی وجہ سے وہ رات کے اندھیرے میں بھی اپنی خدمات فراہم کر سکتا ہے۔
صیہونی فوج کے ساتھ وابستہ عسکری سائنس کے اس مجلے کا لکھنا ہے کہ ایران کی طرف سے ان 2 جدید ڈرون طیاروں کی رونمائی اس بات کی علامت ہے کہ ایرانی دفاعی تکنیک میں ایک بنیادی تبدیلی رونما ہوئی ہے اور وہ یہ کہ اب ایرانی بحری افواج سمندری جنگ کے حوالے سے بھی ایک بہتر مقام پر آ گئی ہیں۔
اسرائیل ڈیفنس کا لکھنا ہے کہ ایران کی یہ سمندری بالادستی ساحل کے قریبی علاقوں کی لڑائی میں بحری بیڑوں اور آبدوزوں کے استعمال اور دور کے علاقوں میں وسیع فاصلوں تک پرواز کرنے والے اسکے ڈرون طیاروں کے مرہون منت ہے جبکہ ان ڈرون طیاروں کے ذریعے تمامتر سمندری صورتحال تک مرکز اور مربوطہ بحری بیڑوں کو بآسانی اور براہ راست دسترسی بھی حاصل ہے۔
اسرائیل ڈیفنس کے مطابق ایرانی بحریہ کی یہ صلاحیت اسرائیل کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ایران نہ صرف مربوطہ علاقے کی تمامتر صورتحال سے فوری اور مکمل آگاہی حاصل کرنے کے قابل ہو گیا ہے بلکہ اسکے دور مار کرنے والے ہتھیار مثلا بحری بیڑوں کو نشانہ بنانیوالا اسکا ’’غدیر‘‘ میزائل سسٹم جسکی رینج 300 تا 500 کلومیٹر ہے، بھی اپنی رینج کی آخری حدوں میں بآسانی اپنے ہدف کے ٹھیک اوپر لگنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہو گئے ہیں جس کا ایران کو سب سے بڑا فائدہ اپنے دور مار کرنے والے میزائلوں کو زیادہ سے زیادہ رینج میں موجود اہداف کو بھی کامیابی کیساتھ نشانہ بنانے میں انتہائی آسانی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران کی دوسری بہت سی صلاحیتوں کے علاوہ یہ نئی صلاحیت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ایرانی بحری دفاعی تکنیک میں بنیادی پیشرفت ہوئی ہے جس کے ذریعے بحریہ اب ایران کیلئے دستِ راست میں بدل گئی ہے جسکو استعمال کرتے ہوئے وہ ساحل سے انتہائی دور موجود اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب ایران اپنے سواحل سے انتہائی دور موجود امریکی تھریٹ کا بھی بآسانی مقابلہ کر سکتا ہے۔