مشرق وسطیٰ میں مسائل کی جڑ امریکہ کا نجس وجود ہے، ناصر شیرازی
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل ایڈوکیٹ ناصر عباس شیرازی کا مدافع حرم شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے متعلق اہم انٹرویو پیش خدمت ہے۔
سوال: آپ ایران کے دورے سے حال ہی میں وطن واپس لوٹے ہیں، حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ایرانی قوم کے جذبات کیا ہیں۔؟
ناصر شیرازی: جی، جو میں نے ایران میں میں دیکھا ہے، وہ ایک جدید انقلاب دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ایک بار پھر انقلاب آگیا ہو، یہ دنیا کا سب سے بڑا جنازہ تھا، رہبر معظم نے فرمایا کہ پہلے میں شہید کے کاموں کی تائید کرتا تھا، شہادت کے بعد بھی ان کے کام کی تحسین کرتا ہوں۔ وہ شہید ہوکر بھی بڑا کام کر گئے۔ وہ زندہ رہ کر تو بہت کچھ کر رہے تھے، مگر شہید ہو کر بھی وہ بہت بڑا کام کر گئے ہیں۔ مجھے ایران میں ایک بڑی تبدیلی نظر آئی، ایران کے عوام جو معاشی پالیسیوں سے پریشان تھے، وہ سب اپنی حکومت کی پشت پر کھڑے ہوگئے ہیں۔ یہ تبدیلی صرف ایران میں نہیں بلکہ خطے میں دیکھی جا رہی ہے۔ عراق کی پارلیمنٹ اور عراقی آئمہ و علمائے کرام نے عراق میں امریکہ کے وجود کو مزید تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حاج قاسم سلیمانی کے جنازے میں اڑھائی کروڑ ایرانیوں نے شرکت کرکے ثابت کر دیا ہے کہ ایران اب ایک طرز پر ہی سوچ رہا ہے۔ جنازے میں ایرانی قوم کی یہ شرکت ایک قسم کا امریکہ مخالف ریفرنڈم تھا۔
عوامی حمایت قاسم سلیمانی کے حق میں تبدیل ہوگئی ہے۔ عوام کا شہید حاج سلیمانی کیلئے کھڑے ہونا اور عوام میں بیداری کی اس تازہ لہر سے انقلاب کو نئی روح مل گئی ہے۔ حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کا اثر حکومتی سطح پر بھی پڑا ہے، دشمن جب مقابل ہو تو وحدت اور بڑھ جاتی ہے۔ اس سے انقلاب کی طاقت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی نے امریکی اہداف کو نشانہ بنایا ہے اور امریکی ہیبت کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ عسکری حوالے سے امریکہ کے مقابلے میں بہت مضبوط ہے۔ دوسرا، ایران بھر میں جگہ جگہ حاج قاسم سلیمانی کے تصاویر ہیں، ہوٹلوں، دکانوں، چوکوں ہر جگہ سلیمانی ہی سلیمانی دکھائی دیتے ہیں۔ پوری ایرانی قوم انتقام کی بات کر رہی ہے۔ خطے سے امریکی انخلاء ہی اب ایرانی قوم کا واحد مطالبہ ہے۔
سوال: جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد خطے میں صورتحال تبدیل ہوئی ہے، آپ پاکستان کی خارجہ پالیسی سے مطمئن ہیں۔؟
ناصر شیرازی: آج سے پہلے خطے میں امریکہ نے چھوٹے چھوٹے خلیجی ممالک جہاں عوامی حکومتیں نہیں ہیں، ان ممالک کے آمر حکمرانوں کو یہ باور کروایا ہوا تھا کہ ان کی حکومتیں امریکہ کے بغیر نہیں چل سکتیں۔ امریکہ نے سعودی عرب کو تحفظ کی ضمانت دی ہوئی تھی کہ ان کی حفاظت امریکہ ہی کرتا ہے۔ سعودی عرب، بحرین، قطر، کویت میں امریکی اڈے ہیں، عراق میں امریکی فوجی اڈے ہیں، ایران کو گھیرنے کیلئے امریکہ نے ایک حصار بنایا ہوا ہے اور امریکہ نے خلیجی ممالک کو باور کروا رکھا تھا کہ امریکہ ہی ان کا محافظ ہے، خطے میں امریکی وجود سے ہی یہ خلیجی ممالک کی حکومتیں محفوظ ہیں اور امریکہ کا خطے میں موجود رہنا بہت ضروری ہے اور اسی بنیاد پر وہ ان خلیجی ممالک سے بھاری رقوم بھی وصول کر رہا تھا۔ دفاع کے نام پر بھاری رقمیں بٹوری جا رہی تھیں، مگر ایران کے عین الاسد سمیت دونوں امریکی اڈوں پر حملوں کے بعد امریکہ کا یہ طلسم ٹوٹ کر خاک میں مل گیا ہے۔ ایران نے امریکی ساکھ پر کاری ضرب لگائی ہے۔ عین الاسد عراق میں امریکہ کا محفوظ ترین اڈہ تھا اور ایران سے کافی دور بھی تھا، لیکن ایران نے اسے کامیابی سے نشانہ بنایا۔
اب خلیجی حکمران یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر عین الاسد جیسا اڈہ محفوظ نہیں تو وہ بھی محفوظ نہیں۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ امریکی ڈیفنس سسٹم ایرانی میزائلوں کو روکنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ اب ان ملکوں کو یہ باور ہوگیا ہے کہ امریکہ اپنے اڈوں کی حفاظت نہیں کرسکا، وہ ہماری حفاظت کیا کرے گا۔ ایران نے بھی تمام عرب ممالک کو وارننگ جاری کی تھی کہ جس ملک سے بھی ایران پر حملہ ہوا، ایران جواب میں اس ملک کو نشانہ بنائے گا، جس سے تمام خلیجی ممالک خوفزدہ ہوگئے۔ اب خطے میں تناو کی صورتحال ہے، امریکی ٹیکنالوجی کا جو بھوت تھا، وہ اتر گیا ہے۔ قطری حکمرانوں نے خود ایران کا دورہ کیا ہے اور تمام خلیجی ممالک بیک ڈور چینل سے ایران کے ساتھ رابطے کر رہے ہیں۔ امریکہ جس پالیسی کے تحت خطے میں موجود ہے، وہ پالیسی ہی خطرے سے دوچار ہوچکی ہے اور دنیا کو پتہ چل گیا ہے کہ امریکہ جھوٹا ملک ہے۔ کیونکہ امریکہ نے پہلے کہا کہ ایرانی حملوں سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ پھر پینٹاگون نے اعتراف کر لیا کہ چند لوگ زخمی ہوئے ہیں، ساتھ یہ بھی اعتراف کیا کہ دونوں اڈے مکمل تباہ ہوگئے ہیں۔
اس اعتراف سے امریکہ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ ایران کی جانب سے حملوں کے بعد ایک اور تبدیلی خطے میں آئی ہے کہ فلسطینیوں کو فائدہ ہوا ہے۔ حماس کے اسماعیل ہانیہ نے حاج قاسم سلیمانی کو ’’شہیدِ قدس‘‘ قرار دیا ہے۔ حاج قاسم سلیمانی کئی بار غزہ کا دورہ کرچکے تھے۔ اب اسرائیل پریشان ہے۔ اسرائیل ایک طرف تو اندرونی طور پر سیاسی انتشار کا شکار ہے، دوسرا بیرونی سطح پر اُسے ایران سے خطرہ ہے، حزب اللہ کا بھی آسان ہدف اسرائیل ہی ہے، جس کی وجہ سے اب اسرائیلیوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ اسرائیل کو اب غزہ میں واضح شکست دکھائی دے رہی ہے اور تحریک آزادی فلسطین کو بھی نئی زندگی ملی ہے۔ عراق کی پارلیمنٹ نے بھی مطالبہ کر دیا ہے کہ امریکہ فوری طور پر عراق چھوڑ دے۔ خطے کی باقی حکومتیں بھی خوفزدہ ہیں۔ حزب اللہ لبنان اور یمن کے حوثیوں نے بھی انتقام کا اعلان کیا ہے۔ خطے میں امریکی پالیسی بھی بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ دوسرا مرحلہ اب شروع ہوا ہے، جس کا آغاز خطے میں امریکی فوجیوں کے انخلاء سے مشروط ہے۔
سوال: قاسم سلیمانی کی شہادت نے پاکستان اور پاکستانی عوام پر کیا اثرات مرتب کئے ہیں۔؟؟
ناصر شیرازی: پاکستان ان ممالک میں سے ہے، جس کے عوام نے بھرپور انداز میں امریکی اقدام کی مذمت کی ہے اور مذمت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ تمام مکاتب فکر امریکہ کیخلاف ایک آواز ہیں۔ پاکستان کے شیعہ اور سنی ایران کیساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستان کے عوام خطے میں تناو کو پاکستان کے حق میں بہتر نہیں سمجھتے، کیونکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ایران میں عدم استحکام پاکستان کیلئے درست نہیں اور پاکستان میں عدم استحکام ایران کیلئے ٹھیک نہیں۔ پاکستان کے عوام امریکہ دشمن اور مذہبی رجحان رکھنے والے ہیں۔ اب اکثریت کا جھکاو ایران کی طرف ہوچکا ہے۔ مردہ باد امریکہ ریلیاں نکلیں، یہ پاکستان میں بیداری کی ایک لہر ہے۔ اہلسنت جماعتوں نے بھی بڑھ چڑھ کر مذمت کی۔ ملی یکجہتی کونسل کے وفد نے ایران کا دورہ کیا۔ ایرانی قوم کو پاکستان کے عوام کے جذبات پہنچائے۔
پاکستانی حکمران بالخصوص وزارت خارجہ امریکہ کی بولی بول رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے حاج سلیمانی پر حملے کی جس طرح مذمت کی جانی چاہیئے تھی، وہ نہیں کی گئی، حتیٰ کہ حاج قاسم سلیمانی کو شہید تک کہتے ہوئے بھی ہمارے حکمران ہچکچاہٹ کا شکار رہے۔ اب صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے، اب عوامی دباو بہت زیادہ ہے۔ حکمرانوں کیلئے امریکہ کی حمایت کرنا مشکل ہوگا۔ اگر ایران امریکہ جنگ ہوتی ہے تو فوری طور پر اثر پٹرول کی قیمتوں پر پڑے گا، جس سے پاکستان میں ایک اور بحران جنم لے لے گا اور پاکستان اس پوزیشن میں نہیں کہ کوئی بحران برداشت کرسکے۔ اس لئے ایران کا استحکام پاکستان کا استحکام ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام پر بھی دباو ہے، اس دباو کا اگلہ مرحلہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہوگا۔
آپ ترتیب دیکھیں، امریکہ اصل میں مرحلہ وار پاکستان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کویت، عراق، شام کے بعد ایران کے گرد پہنچا اور ایران کے بعد اس کا ہدف پاکستان ہے۔ اس لئے امریکہ کو ایران کے باہر ہی روکنا ہوگا، اسے ایران کی طرف بڑھنے سے روکنا ہوگا۔ ایران کا استحکام پاکستان کا استحکام ہے اور پاکستان کا استحکام ایران کا استحکام ہے، ہم دونوں ملک ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ اب بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کا منصوبہ ہو یا پاکستان میں داعش کے داخلے کی بات، پاکستان کو محتاط رہنا ہوگا۔ خطے میں صورتحال ایسی ہے کہ ایران پر حملہ ہوتا ہے تو لامحالہ پاکستان کو ایران کی حمایت کرنا ہوگی، بصورت دیگر پاکستان بھی اس آگ کی لپیٹ میں آجائے گا۔
سوال: کچھ حلقے جو انتہائی قلیل تعداد میں ہیں، کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اور ایران ملے ہوئے ہیں، اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔؟؟
ناصر شیرازی: کانسپیرنسی تھیوری طول تاریخ میں رہی ہے۔ دنیا میں کوئی ملک دکھا دیں، جس نے انتقام کا اعلان کیا ہو اور پھر انتقام لے کر دکھایا ہو۔ ایسے لوگ جو کہتے ہیں کہ امریکہ اور ایران ملے ہوئے ہیں، ان کو اہمیت نہیں دینی چاہیئے، یہ سازشی پلان ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ ایرانی عوام نے اقتصادی پابندیوں سے جو مشکلات برداشت کی ہیں، کیا وہ ملے ہووں کیساتھ ایسے ہوتا ہے؟ ایسی کوئی مثال ہے دنیا میں؟ ایران دنیا میں تیل پیدا کرنیوالا بڑا ملک ہے، مگر اس کی ایکسپورٹ زیرو ہے تو یہ کیسے ہے؟ زمینی حقائق ہی بتا رہے ہیں کہ اصل دشمنی ہی یہی ہے۔ ایران کے اعلیٰ عہدیدار شہید ہوچکے ہیں، قاسم سلیمانی کی اہمیت سے کون واقف نہیں، اگر یہ ملے ہوئے ہوتے تو کیا قاسم سلیمانی جیسا بندہ شہید ہوتا۔؟؟
ایران دراصل ایران کو بچانے کی نہیں بلکہ اسلام کو بچانے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ورنہ ایران کیلئے بہت آسان ہے کہ وہ امریکہ کیساتھ سمجھوتہ کرے، فلسطین کی حمایت سے دستبردار ہو جائے اور خطے میں ایک بار پھر امریکہ کا پولیس مین بن جائے، لیکن ایران کو اسلام کے اصولوں کو بچانے کیلئے بڑی قربانیاں دینی پڑ رہی ہیں۔ ایران قربانیاں دے رہا ہے، مگر مظلوموں کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹ رہا۔ ایران نے اسلام کے روشن اصولوں پر عمل کے علاوہ کوئی روش اختیار نہیں کی۔ اس لئے امت مسلمہ کو ایران کی تقلید کرنی چاہیئے، ایران نے قوموں کو غیرت و حمیت و حریت کا درس دیا ہے اور یہی دراصل اسلام کا پیغام اور کربلا کا سبق ہے۔ اسی سے ایران نے داخلی استحکام حاصل کیا ہے، خارجی دشمنوں کو شکست دی ہے اور اپنے آپ کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کر کھڑا کیا ہے، آپ آج ایران کی دفاعی قوت کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے۔
سوال: ایران نے سعودی عرب کیساتھ مذاکرات سے معاملات حل کرنے کی پیشکش کی ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے مثبت نتیجہ نکل سکے گا۔؟؟
ناصر شیرازی: ایران خطے کے مسائل حل کرنے کیلئے مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ خطے کے ممالک بھی کوشش کریں اور سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک امریکی مفادات کیلئے استعمال نہ ہوں تو بہتری آسکتی ہے۔ ایران کی حالیہ پوزیشن کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایران کی یہ پوزیشن مثبت ہے۔ لیکن میری ذاتی رائے میں ذہنی اور فکری غلامی میں جکڑے سعودی حکمران امریکی مفادات سے ہٹ کر سوچنے کیلئے تیار ہی نہیں۔
سوال: مستقبل میں خطے سے امریکہ کا انخلاء دیکھ رہے ہیں۔؟؟
ناصر شیرازی: مستقبل میں امریکی انخلاء کی بنیاد تو بن چکی ہے، قانونی آغاز عراق سے ہوچکا ہے، عراق کی پارلیمنٹ نے قانون پاس کر لیا ہے کہ امریکہ کو فوری طور پر عراق سے نکل جانا چاہیئے۔ اگر امریکہ اب عراق سے نہیں نکلتا تو عراقیوں کی جانب سے جو مزاحمت ہوگی، وہ قانونی ہوگی۔ دوسری جانب امریکہ کے اتحادی ڈکٹیٹر حکمران ہیں، جن میں اکثر و بیشتر کو عوامی حمایت حاصل نہیں، امریکہ کی خطے میں موجودگی کے باعث یہ حکومتیں بھی اقتصادی مسائل کا شکار ہیں اور ان کیلئے لمبے عرصے تک امریکی فوج کے اخراجات اٹھانا ممکن نہیں، ایران کے موثر جوابی حملے کے بعد امریکی طاقت کا طلسم بھی ٹوٹ چکا ہے۔
اب عسکری طور پر بھی امریکہ کی خطے میں موجودگی کا جواز باقی نہیں رہا، کیونکہ امریکہ نے ان حکمرانوں کو باور کروا رکھا تھا کہ وہ ان کی حفاظت کیلئے ان کے ملکوں میں موجود ہے، اب یہ حکمران کہہ سکتے ہیں کہ وہ امریکہ جو اپنے اڈے ایران سے نہیں بچا سکا، وہ ہماری خاک حفاظت کرے گا۔ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ خطے کے بعض ممالک سے امریکہ اور نیٹو فورسز کا انخلاء شروع ہو جائے گا۔ لیکن امریکہ اس خطے سے آسانی سے نہیں جائے گا۔ ظاہر ہے، وہ یہاں کے وسائل لوٹ رہا ہے۔ خطرہ ہے کہ وہ خطے میں اقتصادی اور سیاسی بحران پیدا کرکے اپنی موجودگی کیلئے جواز پیدا کرے گا۔ وہ اس مقصد کیلئے طاقت کا بھی استعمال کرسکتا ہے۔ یہ صورتحال مزید نئے بحرانوں کو جنم دے سکتی ہے۔
سوال: ہمارے وزیراعظم عمران خان نے غیر جانبدار رہ کر ثالثی کی بات کی ہے، کیا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ امریکہ و ایران کے درمیان مصالحانہ کردار ادا کرسکیں۔؟؟
ناصر شیرازی: پہلے تو غیر جانبدار ہونا بھی کوئی چیز نہیں، قاتل اور مقتول، ظالم اور مظلوم کے درمیان میں آپ کیسے غیر جانبدار رہ سکتے ہیں، مظلوم کی حمایت نہ کرنا بھی قاتل کی مدد کے مترادف ہے۔ یوں اگر پاکستان لاتعلق رہتا ہے تو وہ ظالم کے حمایت کے مترادف ہے۔ اگر ہم اس ایشو پر غیر جانبدار رہتے ہیں تو پھر ہم مسئلہ کشمیر پر موجود اپنی حمایت سے محروم ہو جائیں گے۔ ہم کشمیر کے مظلوموں کیلئے تو حمایت مانگ رہے ہیں، لیکن ایران کے مظلوم عوام کی حمایت نہیں کر رہے، یہ ہمارا دوہرا معیار ہمارے ہی خلاف جائے گا۔ ایران کی حکومت اور دفتر رہبری، دونوں نے کشمیر کے ایشو پر پاکستان کی حمایت کی ہے، لیکن ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم غیر جانبدار ہیں۔ ہماری ایک طویل سرحد ایران کیساتھ ملتی ہے اور یہی سرحد پُرامن بھی ہے۔ بلوچستان میں کسی بھی نئے بحران کا نتیجہ سی پیک پر کاری ضرب لگا سکتا ہے۔ اس لئے یہاں پاکستان کے غیر جانبدار رہنے کا کوئی آپشن نہیں رہ جاتا، بلکہ ہمیں اپنے پڑوسی ملک کی حمایت کیلئے بنیاد فراہم کرنا ہوگی۔ البتہ اگر غیر جانبدار رہنے سے یہ مراد ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے تو یہ مثبت بات ہے۔
سوال: ایران نے کہا ہے کہ وہ امریکہ سے سخت انتقام لے گا، آپکے خیال میں یہ سخت انتقام کیا ہوسکتا ہے۔؟؟
ناصر شیرازی: ایران کی حکومت اور رہبریت نے واضح کیا ہے کہ شہید کے خون کا کم از کم انتقام خطے سے امریکہ کا انخلا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا ہدف ہے۔ اس سے خطے میں استحکام بھی آئے گا۔ البتہ میری اطلاع کے مطابق کچھ یورپی ممالک کے سفیروں نے ایرانی حکومت سے پوچھا ہے کہ عین الاسد پر حملے کے بعد اب تناو ختم ہو جائے گا اور ایران مزید قدم تو نہیں اٹھائے گا؟ تو ایرانی مقتدرہ نے واضح کیا کہ امریکہ نے عراق میں 2 خیانتیں کی ہیں۔ 2 جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔ ایک جرم یہ ہے کہ قاسم سلیمانی کی گاڑی کو نشانہ بنایا ہے اور دوسرا جرم یہ ہے کہ شہید کے جسم کو نشانہ بنایا ہے۔ عین الاسد پر حملہ شہید قاسم کی گاڑی پر حملے کا بدلہ ہے۔ شہید کے بدن کا انتقام ابھی باقی ہے۔ یورپی ممالک اور امریکہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہ محض ایک تھپڑ تھا، ابھی تو انتقام لیا جانا ہے۔
سوال: ایک تاثر دیا جا رہا ہے کہ عراق کے سنی اب بھی امریکہ کیساتھ ہیں، اس میں کتنی صداقت ہے۔؟؟
ناصر شیرازی: اس بات کا امکان ہے کہ ایک بڑی سنی آبادی میں قلیل تعداد امریکہ کی حمایت کرتی ہو، لیکن عراق کی اکثریت شیعہ اور سنی کرد آبادی امریکہ کی مخالف ہے۔ عراقی عوام کی اکثریت جانتی ہے عراق میں داعش کو داخل کرنیوالا امریکہ ہے اور عراقی امریکہ کو ایک جارح تصور کرتے ہیں۔ عراقی عوام امریکہ سے نفرت کرتے ہیں، سنی علاقوں میں بھی امریکہ سے نفرت حاوی ہے۔ کرد بھی امریکہ سے نالاں ہیں۔ البتہ اب امریکہ اپنے وجود کو عراق میں قائم رکھنے کیلئے ’’ڈیوائیڈ اینڈ رول‘‘ کی پالیسی پر عمل کرے گا اور ممکن ہے شیعہ سنی کو آپس میں لڑانے کی کوشش بھی کرے۔ ایسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے، تاہم عراق کے عوام، علماء اور حکومت یہ جان چکی ہے کہ عراق میں مسائل کی جڑ امریکہ ہی ہے، اب اسے عراق سے نکلنا ہی ہوگا۔