مضامینہفتہ کی اہم خبریں

عصرِ حاضر کا صلاح الدین ایوبی، شہید قاسم سلیمانی (رہ)

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)

تحریر: رائے محمد یوسف رضا دھنیالہ
ولد مجاہدِ اہلسنت حضرت علامہ مولانا حافظ محمد اسلم (رہ)

صدام کا عراق تباہ کرکے اس پر قابض امریکیوں نے عربوں میں داعش کا بیج بونے کے لئے ابوبکر البغدادی کو اپنی جیل سے رہا کرکے اس کے نام پر دولتِ اسلامیہ عراق و شام نام کی ایک خونی سلطنت قائم کرکے مسلمانوں کا جب وحشیانہ قتال شروع کروایا تو اس کا نشانہ صرف شیعہ نہیں بلکہ تمام مسلمان اور اس خطے میں آباد عوام الناس بنے۔ امام بارگاہوں کو زمین بوس کیا جانے لگا، عراق و شام میں موجود انبیاء و اولیاء کے مزارات اور اسلامی ورثے کی حامل یادگاروں کو تباہ و برباد کیا گیا اور قریب تھا کہ اسلام کے نام پر قتال کرکے شام و عراق کے مسلمانوں کو اس قدر کمزور اور نڈھال کر دیا جائے کہ پھر اسرائیل شام سے ہوتا ہوا وادیءِ دجلہ و فرات تک بغیر کسی بڑی مزاحمت کے پہنچ کر قابض ہو جائے، تو ایسے میں یہود و نصاریٰ کا راستہ روکنے کے لئے عالمِ اسلام کا ایک حقیقی سپہء سالار مملکتِ اسلامیہ ایران سے اٹھا اور عراق و شام کے مظلوم و محکوم مسلمانوں کو داعش کے پنجہءِ استبداد سے چھڑانے اور امریکی و یہودی سازش کو ناکام بنانے کے لئے میدانِ کارزار میں اس طرح اترا کہ پھر عراق و شام سے عالمی سامراج اور صیہونی پشت پناہی والی اسلام دشمن حکومت "داعش” کا خاتمہ کرکے ہی چھوڑا۔

دورِ حاضر میں اسرائیل، امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو مشرقِ وسطیٰ میں شکست سے دوچار کرکے شام کی راہداری کے ذریعے یہودیوں کی عراق تک رسائی کو روک دینے والا وہ عظیم مسلمان مجاہد پاسدارانِ انقلاب ایران کا جرنیل قاسم سلیمانی تھا، جسے بالآخر انبیاء کی سرزمین پر یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں عظیم شہادت نصیب ہوئی اور وہ مسلمان قوم کا مقدر اور اپنی آخرت سنوار گیا۔ میں ایک اردو داں پاکستانی مسلمان ہوں، لیکن قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کی فوری خبر پاکستانی عوام میں جس طرح پھیلی اور ہم پاکستانیوں سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے سوشل میڈیا پر جس طرح ان کی شہادت کا سوگ منایا، اس یکجہتی نے ثابت کر دیا تھا کہ ہم عرب، ایرانی، تورانی، ترک، ملایا، پاکستانی، ہندوستانی، افریقی یا کسی خاص وطن کے باشندے نہیں بلکہ ملتِ اسلامیہ کے سپوت اور حصہ ہیں۔

میں ایک سنی، حنفی، بریلوی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے والدِ گرامی حضرت علامہ مولانا حافظ محمد اسلم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو "مجاہدِ اہلسنت” کہا جاتا تھا۔
میرے چھوٹے بھائی حافظ محمد یعقوب داتار بھی ایک نامور عالمِ دین اور سنی علماء کی سیاسی، مذہبی اور طلبہ تنظیموں، جمعیت علماءِ پاکستان، مرکزی جماعتِ اہلسنت پاکستان اور انجمن طلباء اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں۔ لیکن سرزمینِ عراق پر قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کی امریکیوں کے ہاتھوں شہادت پر بلا تخصیصِ مسلک پاکستان کے ہر مسلمان نے جس طرح غم و غصے کا اظہار کیا، اس نے دنیائے کفر پر یہ بات ثابت کر دی ہے کہ مسلمان جسمِ واحد کی طرح ہیں اور شہید قاسم سلیمانی (رہ) کی شکل میں مسلم امہ نے یہود و نصاریٰ کو عراق و شام کی سرزمین پر شکست سے دوچار کرکے وادئِ دجلہ و فرات تک اسرائیل کے پھیلاؤ کے منصوبے کو خاک میں ملایا ہے! زندگی تو ویسے بھی اللہ تعالیٰ کی عنایت اور موت کی امانت ہے، لیکن اس طرح کی موت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، جو انہیں تاریخ میں ہمیشہ کے لئے زندہ کر جائے! مرنا تو آخر ایک دن ہر کسی نے ہی ہے، لیکن شہید قاسم سلیمانی نے فیض احمد فیض کے اس شعر کے مصداق شہادت قبول کی ہے کہ
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جاں تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کی قبولیت کی بہترین گواہی برطانوی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر برطانوی وزیراعظم جانسن نے یوں دی ہے کہ: "ہم قاسم سلیمانی کے قتل پر افسوس کا اظہار نہیں کرسکتے، کیونکہ وہ ہمارے مفاد/ ایجنڈے کے خلاف کام کرتا رہا ہے!” مسلمانوں کی زمین پر اسرائیل کی ناجائز ریاست برطانیہ نے ہی قائم کی تھی اور اس صیہونی ریاست کے توسیع پسندانہ ایجنڈے میں دجلہ و فرات (عراق) تک اسرائیل کی حدود لے جانا شامل ہے۔ شام کی گولان کی پہاڑیوں پر تو پہلے سے ہی اسرائیل قابض ہے اور اگر آپ عرب نقشے کو غور سے دیکھیں تو شام ایک ایسی راہداری ہے، جہاں سے اسرائیل عراق تک پہنچ کر قابض ہوسکتا ہے اور اس تناظر میں اگر آپ عراق و شام میں قائم کروائی گئی داعش اور اس کے ہاتھوں شام و عراق کے مسلمانوں کی تباہی و بربادی کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اسرائیل، امریکہ اور ان کے یورپی اتحادی ممالک نے ابوبکر البغدادی کی نام نہاد خلافت اس علاقے میں قائم کروا کر اس کے نام پر شام سے عراق تک رسائی حاصل کرنے والی راہداری میں مسلمانوں کا بے دردی کے ساتھ قتال کیوں کروایا تھا!

ایسے میں جبکہ عرب اور باقی مسلمان ممالک داعش کے مظالم روکنے سے قاصر تھے اور شام و عراق کی اس پٹی سے مسلمانوں کی آبادی کم کر دیئے جانے کے ایجنڈے کے تحت انسانی ہمدردی، پناہ اور مہاجرت کے نام پر لوگوں کا انخلاء بھی کروایا جا رہا تھا، جو کہ اصل میں اسرائیل سے عراق تک یلغار کو آسان بنانے کی منصوبہ بندی میں شامل تھا، ایران نے عالمِ اسلام کے دفاع کی ذمے داری اپنے سر لی اور داعش کی سرکوبی کرنے کے لئے اپنے ایک باصلاحیت جرنیل قاسم سلیمانی کو محاذ پر بھیجا، جس نے جنگ جیت لینے کے بعد شہادت قبول کرکے یہ بھی ثابت کیا کہ اس کا انتخاب درست طور پر کیا گیا تھا۔ قاسم سلیمانی نے شیعہ یا ایران کی جنگ نہیں لڑی تھی بلکہ انہوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف آج کی ایک صلیبی جنگ لڑی ہے، جس میں وہ سرخرو ہوئے، کیونکہ صلاح الدین ایوبی کے وطن پر داعش کی صورت میں جس طرح یہودی و عیسائی قابض ہوچکے تھے، ان سے عراق و شام کا قبضہ چھڑانے کا سہرا قاسم سلیمانی کے سر ہے!

داعش نے جن علاقوں میں اسلام اور جہاد کے نام پر جو انتہائی متنازعہ اقدامات اور انسانیت کے خلاف جرائم کرکے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش کی تھی، اس کو ناکام بنانے کا کریڈٹ قاسم سلیمانی لے گیا ہے! انہوں نے عراق و شام کے جو علاقے داعش سے آزاد کروائے، وہاں سے مال غنیمت سمیٹا نہ عورتوں کو لونڈیاں بنایا اور نہ ان علاقوں کو سلطنت ایران میں مدغم کر دینے کے لئے کشور کشائی کی۔ وہ جہاد اور مسلمانوں کے دفاع کے لئے عراق و شام میں گئے اور امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے بے پناہ وسائل کے مقابلے میں کم تر وسائل کے ساتھ کامیاب و کامران ہو کر شہادت قبول کی!
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
ان کی شہادت کے بعد میرے کچھ قریبی ساتھیوں، مہر تنویر دھنیالہ (نمبردار) اور پروفیسر میاں اجمل جمیل (شمس پور، ضلع جہلم) وغیرہ نے عہد کیا تھا کہ جب ہم ایران جائیں گے تو شہید قاسم سلیمانی (رہ) کی درگاہ/ مزار پر بھی حاضری دینے جائیں گے، ان شا اللہ۔

کچھ ہمارے مسلمان بھائیوں نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ اتنا بڑا اپنا جرنیل مروا کر ایران نے خاطر خواہ بدلہ نہیں لیا، اس بارے میں، میں سمجھتا ہوں کہ اتنے سال قاسم سلیمانی یہود و نصاریٰ کے سینوں پہ مونگ دلتا رہا، ان کی بنائی ہوئی داعش کا مکمل خاتمہ کرکے عراق و شام کو واپس لے لیا اور لبنان میں حزب اللہ کا وجود باقی رہنا اور عراق و شام میں شیعہ حکومتوں کو بحال رکھوانا، ایران سے لبنان تک بننے والے ہلال کا جوں کا توں موجود ہونا اور داعش کے زیرِ قبضہ علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی خلافت کی آڑ میں صیہونیوں نے مسلمانوں کو تہہ و تیغ اور تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا، وہاں اب امن کی زندگی لوٹا دینے کے بعد قاسم سلیمانی کا شہادت کے رتبے پہ فائز ہونا کیا اب بھی ہمیں اپنی شکست لگ سکتا ہے، بھلا؟ اور پھر کیا بدلے کے لئے ایک اور جنگ شروع کرنا خطے اور عالمِ اسلام کے اپنے مفاد میں ہے۔؟ میرے خیال میں قاسم سلیمانی عالمی استعمار کو بہت زیادہ زِک پہنچا کر شہید ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ شہید قاسم سلیمانی کے درجات بلند فرمائے اور آئندہ کی یہودی و نصرانی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کا نعم البدل عطاء فرمائے اور ہمیں اتحادِ امت کا داعی بننے کی توفیق عطاء فرمائے!
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button