خطے میں جنگی ساز و سامان کا انبار، نیا فتنہ شروع کرنے کی تیاری
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) مشہور عربی اخبار رای الیوم نے آبنائے ہرمز اور علاقے میں مغرب کی جنگ کی آگ بھڑکانے والی پالیسی اور اس کے نتائج کا جائزہ لیا ہے۔
آبنائے ہرمز میں جہاں امریکہ اور یورپی ممالک اپنے فوجیوں اور فوجی ساز و سامان کے ہجوم کھڑا کر رہے ہیں، کشیدگی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
فرانس نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ایک سمندری اتحاد بنایا ہے جس میں بلجیئم، ڈنمارک، یونان، اٹلی، ہالینڈ اور پرتغال جیسے ممالک شامل ہیں جبکہ فرانس نے اپنا طیارہ بردار جنگی بیڑا چارلز ڈیگول بھی روانہ کر دیا ہے۔
برطانیہ نے امریکی اتحاد کے تحت خلیج فارس میں اپنی واپسی کرنے اور فوجی موجودگی میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی اتحاد میں آسٹریلیا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں ۔
اس اتحاد کو تشکیل دینے اور فوجی موجودگی بڑھانے کا مقصد، سعودی عرب کو یقین دلانا ہے جس کے تیل کی تنصیبات پر بڑے حملے ہوئے تھے لیکن اس سارے ڈرامے کا اصلی مقصد، ایران کے خلاف جنگ کی تیاری کرنا ہو سکتا ہے کیونکہ ایٹمی معاہدے سے ایران کے باہر نکلنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
سعودی عرب نے اپنی سرزمین پر تین ہزار امریکی فوجیوں کی تعیناتی کے عوض 50 کروڑ ڈالر کی رقم، امریکہ کو ادا کی ہے۔ جب تک خلیج فارس کے یہ عرب ممالک اس طرح کی ادائیگی کرتے رہیں گے اس وقت تک یورپی ممالک میں اپنے فوجیوں اور جنگی بیڑے خلیج فارس میں بھیجنے کا جذبہ بھی بڑھتا رہے گا لیکن یہ بات سعودی عرب بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ ممالک اس کے لئے ایران یا کسی بھی طاقتور ممالک سے کوئی جنگ کرنے والے نہیں ہیں۔
آبنائے ہرمز کے علاقے میں اس طرح بڑے پیمانے پر فوجیوں اور فوجی ساز و سامان کی بھیڑ میں کبھی بھی کوئی واقعہ رونما ہو سکتا ہے جس سے فوجی تصادم کی صورتحال بن سکتی ہے۔
ٹرمپ نے تو متعدد بار کہا ہے کہ وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے نہیں دیں گے اس پر اسرائیل نے خوب خوشیاں بھی منائی۔
ایران نے عراق میں واقع امریکی فوجی چھاؤنی عین الاس پر جس کامیابی کے ساتھ میزائل حملہ کیا ہے اور اس حملے سے جو شدید نقصان اس چھاونی ہو پہنچا ہے اس سے صاف ہو گیا ہے کہ اس علاقے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بھی کوئی بھی چھاؤنی محفوظ نہیں ہے۔ اس حملے کے بعد در حقیقت امریکی اور یورپی فوجی توازن میں کافی تبدیلی رونما ہوگئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ فرانس نے ایران کے ایٹمی معاہدے کے معاملے میں اپنا رخ تیزی سے بدل لیا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ سوئز نہر کی جنگ فرانس، برطانیہ اور اسرائیل نے ہی کروائی تھی۔
دوسری جانب ایران ہے جس کے پاس طاقتور ادارے ہیں، جس کے پاس بڑے مضبوط تھنک ٹینک ہیں حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ایران ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہنے والا ملک نہیں ہے۔ ایران صحیح وقت پر کچھ بھی کرنے والا ملک ہے۔
بشکریہ
رای الیوم