مضامینہفتہ کی اہم خبریں

سید حسن نصراللہ کے موقف کی جیت

شیعہ نیوز: لیجیے ایک اور مرتبہ سعد حریری لبنان کے وزیراعظم نامزد ہوچکے ہیں۔ صدر میشال عون نے انہیں نئی کابینہ کے قیام کے لیے وزراء چننے کا فریضہ سونپ دیا ہے۔ یاد رہے کہ لبنان میں 6 مئی 2018ء کو عام انتخابات ہوئے۔ تب سے اب تک اسرائیل کے مفاد میں امریکی بلاک نے وہاں مسلسل مداخلت کا سلسلہ جاری رکھا۔ امریکی زایونسٹ سعودی بلاک نے سارے سیاسی ٹوٹکے آزمالیے، لیکن صرف ایک ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائے اور وہ ہے لبنان کو ایک باقاعدہ حکومت سے محروم رکھتے ہوئے ٹائم پاس کرتے رہنا۔ جس وقت اکتوبر 2019ء میں حکومت کے خلاف بیروت میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے، تب بھی یہی سعد حریری لبنان کے وزیراعظم تھے اور ان کی حکومت ہی استعفیٰ دے کر گھر چلی گئی تھی۔ گیارہ فروری 2020ء کو وزیراعظم حسن دیاب کی کابینہ نے لبنان کی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تھا۔ اگست میں بیروت دھماکہ کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو حسن دیاب کی حکومت بھی مستعفی ہوگئی۔ اس کے بعد سے وزیراعظم کے عہدے کے لیے کسی نام پر اتفاق نہ ہوسکا۔ یاد رہے کہ لبنان کا وزیراعظم سنی ہوتا ہے۔ چونکہ ایک باقاعدہ حکومت کے نہ ہونے سے ایک مملکت کا نظم و نسق ممکن نہیں، اسی لیے نہ ہونے سے ہونا بہتر کے مصداق حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے پچھلے سال ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ سعد حریری کی حکومت کو مستعفی نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اسے برقرار رہنا چاہیئے، لیکن سعد حریری نے استعفیٰ دے دیا۔ یوں ان کی حکومت اختتام کو پہنچی۔

اب ایک سال بعد دوبارہ سعد حریری وزیراعظم نامزد ہوچکے۔ شاید دو ہفتوں میں کابینہ کے وزراء کے ناموں پر اتفاق ہو جائے۔ یوں نئی کابینہ کے قیام سے لبنان کو ایک اور مرتبہ پرانے وزیراعظم کی نئی حکومت دستیاب ہوگی۔ اب لبنانی عوام اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ پورا ایک سال ضایع ہوگیا، انہیں حاصل کیا ہوا۔ اگر لبنان کی زبان عربی کی بجائے اردو ہوتی تو ہم لبنان کے سیاستدانوں سے یہی کہتے کہ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ لبنان کے حوالے سے پہلے بھی عرض کیا جا چکا کہ لبنان کے مسائل کی جڑ امریکی زایونسٹ بلاک میں شامل امریکا، فرانس، سعودی عرب اور اسرائیل کی مشترکہ مداخلت ہے۔ یہ چار کا ٹولہ زیادہ فعال ہے جبکہ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک بھی اسی زایونسٹ بلاک کا ہی حصہ ہیں۔ یہ سارے لبنان سمیت ہر عرب اور مسلمان ملک کو اور خاص طور پر فلسطین، لبنان، شام، اردن، مصر، عراق تا یمن تا سوڈان کو داخلی مسائل میں الجھا کر مسلسل منتشر رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا ہدف یہ ہے کہ کوئی ملک زایونسٹ بلاک کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ رہے۔ بنیادی ہدف ان کا یہ ہے کہ سارے عرب اور مسلمان ملک اسرائیل کو بحیثیت قانونی جائز مملکت تسلیم کرلیں۔ چونکہ اسرائیل فلسطین پر ناجائز قبضے کا نام ہے، اس لیے عرب لیگ، او آئی سی سمیت ہر بین الاقوامی مسلمان بلاک نے اسے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔

فلسطین پر قبضے کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے لبنان اور شام کے علاقوں پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی دیگر ممالک میں مہاجرین کی زندگی گذار رہے ہیں، جن کا ناقابل تنسیخ بنیادی انسانی حق ہے کہ وہ اپنے وطن واپس آئیں اور از سرنو آباد ہوں۔ نسل پرست یہودی دہشت گردوں نے ان فلسطینیوں یا ان کے بزرگان کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر انہیں فلسطین سے نکالا تھا۔ تب سے وہ کسمپرسی کی حالت میں زندگی گذارتے چلے آرہے ہیں۔ لبنان میں بھی ایسے فلسطینی پناہ گزین کیمپ قائم ہیں اور لبنان میں اسرائیل نے یلغار بھی کی، یعنی انٹرنیشنل لاء کی خلاف ورزی کرکے لبنان کی جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کرکے بیروت تک اسرائیلی فوج گھسی اور قتل عام کیا۔ فضائی اور بحری حدود کی خلاف ورزی تو آج بھی اسرائیل کا روز کا معمول ہے۔ صبرا اور شتیلا کے کیمپوں میں لبنان کے اندر فلسطینیوں کا قتل عام بھی اسرائیل نے کیا۔ لبنان میں اسرائیل نے یہودی نسل پرست جعلی ریاست کے مخالفین اور فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے عربوں کے خلاف بھی منظم حملے کیے اور پراکسی گروپس کے ذریعے بھی اسرائیل نے دہشت گردی کی۔ جب ہم لفظ عرب کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کرسچن اور مسلمان دونوں۔

سعد حریری کے لیے ان کی پھوپھی نے بھی لابنگ کی ہے۔ انہوں نے حزب اللہ اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرکے مذاکرات کیے۔ خود سعد حریری کے حامیوں کو سوچنا چاہیئے کہ زایونسٹ بلاک کتنا سنگدل اور تنگدل ہے کہ سعد حریری کے مقابلے میں ان کے بڑے بھائی بھاء حریری کو لاکھڑا کیا۔ اسی سعد حریری کو خود سعودی عرب کے ولی عہد سلطنت ایم بی ایس نے سعودیہ بلاکر ذلیل کیا۔ پوری دنیا نے سعد حریری کی سعودی عرب میں توہین و تذلیل کو ذرایع ابلاغ کے توسط سے دیکھا۔ باوجود این، سعد حریری ان مسائل میں ایک آزاد اور غیرت مند انسان کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ وہ اس زایونسٹ بلاک کی مداخلت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے اور کھل کر لبنان کی قومی آزادی، غیرت اور خود مختاری کا تحفظ کرتے۔ یعنی اسرائیل اور اس کے حامیوں کا نام لے کر مذمت کرتے، لیکن وہ اس کردار کو ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ چونکہ وزیراعظم سنی ہی ہونا ہے اور لبنان کا سیاسی نظام ایسا ہے کہ اس میں حکومت سازی کے لیے ساری پارلیمانی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا بے حد مشکل مرحلہ ہوتا ہے، اسی لیے ایک اور مرتبہ سعد حریری کو وزیراعظم نامزد کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سعد حریری کے وزیراعظم بنا دینے سے سارے مسائل فوری حل ہو جائیں گے۔ جی نہیں، بلکہ ایک باقاعدہ حکومت کا ہونا ناگزیر ہے۔ اس وقت لبنان کو سب سے بڑا چیلنج اس کے اپنے وجود کی بقاء کا ہے۔ اس کی آزادی، خود مختاری، قومی سلامتی، یہ سب سے زیادہ اہم ہے اور اس کے بعد لبنان کے اندر سیاسی و انتظامی و عدالتی اصلاحات کا عمل ہے۔ لبنان کی اقتصادی صورتحال بہتر بنانے کے لیے کرپشن کے خلاف مشترکہ سیاسی تعاون لازمی ہے۔

امریکی زایونسٹ بلاک جس میں امریکا، سعودیہ، امارات اور فرانس بھی شامل ہیں، ان کا اصل ہدف اسرائیل کا دفاع اور تحفظ ہے۔ شام اور لبنان، یمن، عراق، ایران، پاکستان، افغانستان سمیت پورا عالم اسلام زایونسٹ بلاک کے اس ایجنڈا کی وجہ سے عدم استحکام سے دوچار ہے۔ بحری حدود کے تنازعہ کے حل کے لیے بظاہر امریکا اسرائیل اور لبنان کے مابین مذاکرات کروا رہا ہے، لیکن یاد رہے کہ یاسر عرفات اور محمود عباس کی قیادت میں فلسطینیوں کے مذاکرات بھی امریکا ہی نے کروائے تھے۔ امریکا و اسرائیل کے لبنان سے مذاکرات بھی ٹائم پاس مشق ہے۔ بس ایک محاذ ٹھنڈا کرنے کے لیے۔ یعنی اس وقت جب متحدہ عرب امارات اور بحرین اسرائیل کے ساتھ اعلانیہ رسمی تعلقات قائم کرچکے ہیں تو لبنان کی مخالفت سے بچنے کے لیے مذاکرات کا ڈھونگ رچا رہا ہے۔ لبنان کی زمینی حدود پر بھی تو اسرائیل آج تک قابض ہے، اس تنازعہ کو تو آج تک حل نہ کیا جاسکا۔ شام کے علاقے جولان پر اسرائیل نے ناجائز غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے، وہاں تو امریکا نے قبضے کو جائز کہہ کر تسلیم کر لیا ہے۔

اس لیے سعد حریری کی ایک اور مرتبہ وزارت عظمیٰ پر واپسی کے بعد لبنان کے سیاسی اسٹیک ہولڈرز اور قوم کو پہلے سے زیادہ زیرکی کے ساتھ زایونسٹ بلاک سے مقابلے کے لیے زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہم ایک طویل عرصے سے شاہد ہیں کہ حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کا موقف سچ پر مبنی ہوتا ہے اور انہی کے موقف کی جیت ہوتی ہے۔ کاش کہ سعد حریری اور دیگر لبنانی سیاستدان بھی حقیقت سے نظر چرانے کی بجائے لبنان کے ساتھ مخلص ہو جائیں تو لبنان ان مشکلات کو جلد شکست دے سکے گا۔ سید حسن نصر اللہ نے ایک سال قبل یہی تجویز دی تھی کہ سعد حریری مستعفی نہ ہوں، ان کے استعفیٰ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ آج سعد حریری خود فیصلہ کر لیں کہ ایک سال قبل انہوں نے ایک غلط فیصلہ کیا تھا اور ایک سال بعد خود ہی رجوع پر مجبور ہیں۔
تحریر: محمد سلمان مہدی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button