مضامین

رونے دھونے کی تبلیغ سے باز رہنا، لوگوں کو ہمت اور حوصلہ چاہیے

سب سے پہلے گزارش لازمی یہ ہے کہ اقبال کے رخصت ہو جانے کے بعد بہت سے ایسے لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ علامہ ا قبالؒ کے بے تکلف دوست تھے اور ایک دو نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ خیال ہم دیتے تھے، شعر اقبال کہہ دیتا تھا۔ مجھے اعتراف کرنا ہے کہ میں نہ تو اقبال کے حلقہ احباب میں شامل تھا اور نہ مجھے مریدان خاص الخاص میں شمار ہونے کا کسی بھی رنگ ڈھنگ سے دعویٰ ہے البتہ میں باریاب تھا اور وہ مجھ پر مہربان تھے، اس مہر و کرم کا سبب میرا نیاز مندانہ خاموش انداز تھا۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ میں حضرت مولانا گرامی کا شاگرد تھا اور گرامی مرحوم اور علامہ اقبال میں نہ محض گہری دوستی تھی بلکہ ایک اور رشتہ بھی تھا۔ اقبال اپنے فارسی کلام کی زبان اور محاورے کے بارے میں حضرت گرامی سے مشورہ کیا کرتے تھے۔

اس خط و کتابت کا بہت سا حصہ میری نظر سے گزرتا تھا، جو گرامی اور اقبال میں ہوا کرتی تھی بلکہ میں لاہور آکر گرامی کے خطوط بھی پہنچایا کرتا۔ بسا اوقات جوابات بھی لے جایا کرتا تھا۔ یہاں تو محض وہ تاثرات بیان کرنا ہیں جو بعض یادگار واقعات میری ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ۔

علامہ اقبال کو پہلی مرتبہ میں نے ایک بہت بڑے مشاعرے میں دیکھا جہاں میں خود بھی شعر پڑھنے کے لیے جالندھر سے بلایا گیا تھا۔ الحمد للہ میں اس روز کی عمومی ذلت سے شعر نہ پڑھنے کے سبب بچ گیا تھا۔ میری عمر سولہ برس سے زیادہ نہ تھی۔
مجھے پنجابی کا بھی، اردو کا بھی اچھا شاعر بتایا جاتا تھا۔ جس مشاعرے کا میں ذکر کرنے والا ہوں وہ مشاعرہ اولین جنگ عالمگیر کے آخری دور میں پنجاب پبلسٹی کمیٹی کی طرف سے منعقد ہوا تھا ہزاروں سننے والے شمالی ہندوستان کے سب سے بڑے اور وسیع (بریڈلا) ہال لاہور میں جمع تھے۔

فضا کچھ ایسی تھی کہ جس شاعر نے بھی سٹیج پر آکر لوگوں کے چشم و گوش پر حملہ آور ہونے کی جُراء ت کی، لاہور کے کالجی جوانوں کی بپھری ہوئی موج نے شاعر کو پسپا ہو جانے پر مجبور کر دیا۔ بعض شاعر لوگ بڑے دعوے سے ’’ منم منم‘‘ کرتے ہوئے اٹھے لیکن داد میں بڑی ندامت ملی بعض خود بیٹھ گئے اور بعض بٹھا دئیے گئے۔
پولیس بلائی گئی۔ سامنے فرشی بنچوں پر اور گیلریوں میں ٹھنسے ہوئے ہندو، مسلمان، سکھ کالجی نوجوانوں پر ڈنڈا برسا۔ لیکن شاعروں کی فوج کو شکست کے سوا اور کچھ نصیب نہ ہوا۔

پولیس ایکشن کے سبب بجتی ہوئی تالیاں اور اجتماعی سیٹیاں تو ذرا چپ سادھ گئیں، لیکن ستر ہزار بھنچے ہوئے دانتوں اور نیم وا ہونٹوں سے ایسی شوں شوں کی صدا سے اس وسیع ہال کی فضا ایسی بھر گئی جیسے آبشار گر رہے ہوں یا بہشتیوں نے بیک وقت پانی کی بھری ہوئی لاکھوں مشکوں کے منہ کھول دیے ہوں۔

جس شاعر نے بھی سر اٹھانے کی جسارت کی اس پر ہزاروں گھڑوں پانی پڑنے لگا۔

واضح رہے کہ یہ مشاعرہ امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں قتل عام اور اوڈوائر کے نافذ کردہ مارشل لائسے پہلے کا واقعہ ہے۔ مشاعرے کے آغاز میں تھیٹر کے گویوں کی ایک پارٹی سے ہارمونیم اور طلبہ پیٹنے کے ساتھ۔

’یا رب رہے سلامت فرمانروا ہمارا‘ گوایا گیا۔

(مشہور بدنام) سر مائیکل اوڈوائر صوبہ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر صدارت فرما رہے تھے۔ حکیم احمد شجاع صاحب سرکاری اخبار ’’ حق‘‘ کے ایڈیٹر اور مشہور و معروف شاعر و صاحب قلم کو سٹیج پر بلانے اور سامعین کو مختلف طریق سے خاموش کرانے کی ناکامی کا شکار تھے۔

مشاعرے کی یہ مضحکہ خیز حالت تھی کہ ڈاکٹر اقبال کے نام کا اعلان کیا گیا لیجئے ڈاکٹر اقبال اپنا کلام سنائیں گے!

میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ تمام زبانیں، تمام شور و شر، تمام تالیاں، تمام سیٹیاں یکایک چپ سادھ گئیں۔ وہ جو فرش پر جوتوں کی پھٹ پھٹ تھی۔ وہ جو بنچوں پر پنسلوں کی کھٹ کھٹ کھٹاک تھی، سب دم بخود پانی کی سب مشکوں کے منہ بند۔

یہ تھا علامہ ا قبال کا میری آنکھوں سے پہلی مرتبہ کا دیدار۔۔۔۔ ایک مضبوط، وجیہہ، ادھیڑ عمر کا فرد ، ترکی ٹوپی اوڑھے وقار کے ساتھ اسٹیج پر آیا۔ اس نے فارسی زبان میں ایک نظم ترنم کے ساتھ سنائی۔ یہ تھا اس کا حوصلہ اور اعتماد ذات، اس وقت جب سترہ ہزار میں زیادہ سامعین سکھ پنجابی کے رسیا، ہند و ہندی کے طالب اردو تک کے دشمن وہاں فارسی کی نظم!

یہ نظم سب نے سنی، فارسی نہ جاننے والے بے شمار تھے۔ جاننے والے چند سینکڑوں سے زیادہ نہ ہوں گے۔ لیکن اقبال جب وہ نظم سنا کر بیٹھا تو تحسین کی تالیوں سے ہال ہی نہیں زمین و آسماں مسحور ہو گئے۔ آج مجھے یہ معلوم ہوا کہ ہم سب جو ہجوم اندر ہجوم شاعر ہیں ان میں اصل شاعر کون ہے! الحمد للہ! اتنی فارسی تو میں بھی جانتا تھا، جس نے مجھے بتایا اور میں سمجھ گیا کہ اقبال کیا ہے کیوں سب سے بلند ہے۔

دوسری مرتبہ اقبال کو میں نے (امرتسر) مسلم لیگ کے اس جلسے میں شعر سناتے سنا، جہاں مولانا محمد علی اور شوکت علی قید سے رہا ہو کر امرتسر آئے تھے۔ یہ وہ پر آشوب دور تھا جب غلاموں نے آزادی کی پہلی کروٹ لی تھی۔ جلیانوالہ باغ کا واقعہ ہو چکا تھا۔ کانگریس اور مسلم لیگ نے اتحاد کر لیا تھا۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے ہنگامہ خیز اجلاس ہو رہے تھے۔

میں جلیانوالہ باغ کے واقعہ سے دو دن پہلے جالندھر کے ایک پراونشل کانگریس کے جلسے میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو کے اصرار و ایماء پر ایک نظم سنانے کے جرم میں قید کاٹ چکا تھا اور اب باغی شاعر بن رہا تھا۔

مسلم لیگ کا اجلاس اس تھیٹر ہال میں تھا جو امرتسر کے مسلم ہائی سکول کے عین قریب تھا اور جہاں میں کبھی کبھی جالندھر سے بھاگ بھاگ کر تھیٹر دیکھنے جایا کرتا تھا۔

 

علامہ نے چند شعر زاغ و زغن اور باز و عقاب کے امتیاز کے لیے پڑھے، عنوان تھا:’’ فلسفہ اسیری‘‘ مترنم آواز آج تک میرے کانوں میں گونجتی ہے۔۔۔۔ سریلا۔۔۔۔۔ دل میں اتر جانے والا ترنم۔

جلسہ ختم ہوا اقبال بہت سے آدمیوں کے جھرمٹ میں جلسہ گاہ سے نکل رہے تھے ہجوم میں گھس پل کر میں نے ان کا محض ہاتھ ہی نہیں پکڑ لیا بلکہ لپٹ بھی گیا۔۔۔۔ جیسے بچھڑا ہوا بیٹا اپنے باپ کو لپٹا لے۔ علامہ کچھ بولے نہیں۔ میری صورت دیکھتے اور مسکراتے رہے میں واقعی وارفتہ سا تھا ان کے ارد گرد کا ہجوم اور میں پتلا دبلا سوکھا ساکھا کم حیثیت سا لڑکا۔۔۔۔۔ میری اس حرکت سے ڈاکٹر صاحب کے پیچھے چلنے والا ایک سیلاب رک گیا۔

مجھے اس وقت ہوش آیا، جب بازو سے پکڑ کر کسی نے مجھے دھکیل دیا۔ آواز آئی: اوئے ہن بس وی کر (یعنی اب ختم بھی کر)

دیکھا تو ایک کالا بجھنگ دیو۔ طرے دار پگڑی باندھے میرے اور علامہ کے درمیان حائل ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ چودھری شہاب الدین (مرحوم) تھے جو ان دنوں علامہ کے مریدان خاص میں گنے جاتے تھے۔

میری اولین شاعرانہ جسارتِ ملاقات 1921ء میں ہوئی، جب میری عمر 21 برس تھی۔ جالندھر سے ایک رسالہ ’’ اعجاز‘‘ نامی نکالنے کا ارادہ کیا۔ ملک الشعراء گرامی اس رسالے کے سرپرست تھے۔

پہلے نمبر کے لیے مجھے علامہ اقبال کے اشعار کی تمنا تھی۔ حضرت گرامی نے ایک چٹھی دی میں لاہور پہنچا۔ عصر کے بعد کا وقت تھا۔ آپ انار کلی کے بالا خانہ میں متمکن تھے۔ سیڑھیاں چڑھ کر برآمدے میں داخل ہوا تو علامہ کا خاص خادم علی بخش خندہ پیشانی سے پیش آیا۔ گرامی صاحب کے چٹھی رساں کو دیکھ کر علی بخش ہمیشہ پھول کی طرح کھل جایا کرتا تھا۔

ڈاکٹر صاحب دوسرے کمرے میں آرام کرسی پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ میں ڈاکٹر صاحب کو مولانا گرامی کا خط دیا، جب تک وہ پڑھتے رہے میں کھڑا ان کے چہرے کا اتار چڑھاوء دیکھتا رہا۔ اس خط میں حضرت گرامی نے میری تعریف کے پل باندھ رکھے تھے۔ مجھے آسمان ادب پر چمکنے والا روشن ستارہ بتایا تھا اور ڈاکٹر صاحب کو مجھ پر ہمیشہ مہربان رہنے کی تاکید کی تھی۔

ڈاکٹر صاحب نے کرسی کی طرف اشارہ کیا:

’’ حفیظ جی! بیٹھ جاوء، علی بخشا چا لیا‘‘ چائے کی یہ اولین پیالی تھی جسے میں حجاب، آداب کے سبب خالی بھی نہ کر سکا۔ پہلے آپ نے مجھ سے گرامی صاحب کی صحت، ان کے لاہور آنے کے ارادے پوچھے پھر دوبارہ خط پر نظر ڈالی اور میری تعلیم دریافت کی۔

میں ندامت کے کنویں میں گر گیا۔ میرے منہ سے نکلا:’’ ساتویں جماعت‘‘ پاس کہنا بھول گیا ادبی رسالے کا ایڈیٹر بننے کو حکیم الامت اور اس دنیا میں سے بڑے عالم اور شاعر اقبال سے اشعار طلب کرتے وقت اپنی حیثیت علم بیان کرنے کے دوران اسکول سے بھگوڑے کا جو حال ہو سکتا ہے اس کا اندازہ فرما سکیں تو فرمائیے۔
علامہ کی نگاہوں میں حقارت کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔ فرمایا، مطالعہ جاری رکھو۔

پھر پوچھا: تم فارسی میں شعر کہتے ہو یااردو میں؟

میں نے عرض کیا: اردو میں

فرمایا: بہت اچھی بات ہے، ایک بات یاد رکھو اپنے اشعار میں رونے دھونے کی تبلیغ سے باز رہنا۔ رونا رلانا بہت ہو چکا ہے لوگوں کو ہمت اور حوصلہ درکار ہے۔

اب میں نے اپنے رسالے ’’ اعجاز‘‘ کے لیے علامہ سے اشعار کی درخواست کی۔ آپ نے بکمال مہربانی مجھے پانچ شعر فارسی کے لکھوائے۔

گرامی صاحب کا نام لے کر رسالے کے لیے کبھی کبھی قلمی امداد کی میری درخواست کے جواب میں جو کچھ کہا میرے سینے پر لکھا ہے۔

فرمایا: ’’ جس طرح کوئی زمین بہت زیادہ کاشت ہوتی رہنے سے بنجر ہو جاتی ہے، اس کو کچھ عرصے کے لیے بغیر کاشت چھوڑ دینا چاہیے تاکہ زمین کی خدا داد صلاحیت اپنا مقام حاصل کرے۔‘‘

آج کل میرا یہی حال ہے بہت کم لکھتا ہوں

آہ! آج میں علامہ کے اس عذر کو خود اپنی ذات پر مسلط دیکھتا ہی نہیں بلکہ ا س عذر پر خود بخود آنسو بھی بہاتا ہوں۔

میں جالندھر چھوڑ کر لاہور آ گیا۔ یہ 1922ء کا واقعہ ہے۔ لاہور میں میری شعر و شاعری نے ہنگامے برپا کر دیے لیکن حاضری کا شوق مجھے شیخ عبدالقادر اور ڈاکٹر آقبال کے پاس لے جاتا رہا۔ اور یہی میرے لیے زاد سفر تھا یعنی سرمایہ حیات۔

آپ نے دو ایک مرتبہ نہ جانے کیوں مجھ سے شعر سنانے کی فرمائش کی لیکن مجھ سے یہ حماقت سر زد نہ ہو سکی۔ سچ ہے میں ان دنوں پنجاب ہی کا نہیں پورے نیم بر اعظم کا ’’ گاماں پہلوان سخن‘‘ تھا۔ لیکن اقبال کے سامنے شاعر بننا اور شعر سنانا مجھے تو بیہودگی ہی نظر آتی تھی۔

میں نے علامہ کی موجودگی میں انجمن حمایت اسلام کے بڑے بڑے عظیم الشان جلسوں میں شعر تو سنائے ہیں، چندہ بھی جمع کرایا ہے لیکن ان کے در و دولت پر جا کر شعر تو کیا شاعری کے متعلق کچھ پوچھنے کی بھی جسارت نہ ہو سکی۔ ان کو شعر سنانے کے چند ہی واقعے میری زندگی کی یادگار ہیں۔

پہلی صورت یہ ہوئی کہ میں نے ایک نظم ’’ تین نغمے‘‘ (ٹیگور ، اقبال اور حفیظ) لکھی تھی سب سے پہلے فارمن کرسچین کالج کے ایک بہت بڑے جلسے میں سنائی بعد ازاں یہ نظم ہر جگہ سنی جانے لگی تھی۔

سر راس مسعود (مرحوم) نے جو علامہ کے والا و شیدا تھے علی گڑھ اور کانپور کی اردو کانفرنسوں میں اور عظیم مشاعروں اور جلسوں میں مجھ سے یہ نظم سن سن کر اس کی نقل بھی مجھ سے لے رکھی تھی۔

ایک دن میں اپنے ٹھکانے پر ماڈل ٹاؤن میں تھا کہ سر راس مسعود جو کسی کام کے لیے لاہور آئے تھے، موٹر کار میں میرے غریب خانے پر آپہنچے میں اس وقت ’’ سوز و ساز‘‘ کی کتابت پر نظر کر رہا تھا۔ کھڑے کھڑے مجھ سے کہا نظم ’’ تین نغمے‘‘ لو اور میرے ساتھ موٹر میں سوار ہو جاوء۔

میں نے کہا حضرت! ذرا میرے غریب خانے کو زینت بخشئے۔

جواب ملا: نہیں، آج تمہیں گرفتار کرنے ہی کو آیا ہوں

میں نے تعمیل ارشاد کی سمجھا مجھے سر شفیع کے ہاں لے جائیں گے۔ کتابت شدہ نظم لپیٹی اور ساتھ ہو لیا۔ لاہور پہنچے، دیکھا وہ سیدھے میکلوڈ روڈ، علامہ کے مکان میں داخل ہو رہے ہیں۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔
اب حجت اور حیلہ بے معنی تھا۔ سہما ہوا برآمدے میں داخل ہوا۔ علی بخش نے کرسیاں آگے بڑھائیں، سر راس مسعود بیٹھ گئے میں کھڑا رہا سر راس مسعود نے علامہ سے کہا:

’’ لیجئے آپ کے ایک بڑے مجرم کو پکڑ لایا ہوں‘‘ میں نے ڈاکٹر صاحب کو سلام کیا وہ ہنسے، فرمایا: آوء جی، حفیظ جی! ایہہ تاں بہت برے ہتھ پھسے او(یہ تو بہت برے ہاتھ پھنس گئے ہو)

جواب دئیے بغیر میں گم صم بیٹھ گیا۔ خلاف معمول آج خود ہی اپنے حقے کی نے میری طرف پھیر دی۔

بھلا سر راس کو تاب کہاں۔ اقبال! تم میرے بیٹے کا مزاج خراب کر دو گے۔ پھر میری طرف مخاطب ہوئے

’’ پہلے وہ نظم سناوء، تمہارے جرم کی سزا مل جائے تو حقہ بھی گڑ گڑا لینا۔‘‘

سید سر راس مسعود کی طرف سے یہ انتہائی قدر افزائی تھی لیکن میرے حواس غائب تھے میں نے عرض کیا:’’ مجھ سے ڈاکٹر صاحب کے سامنے شعر پڑھا نہیں جاتا۔‘‘ سید راس مسعود نے کہا:’’منہ میری طرف کر لو۔ سمجھ لو تم علی گڑھ میں ہو۔ جس طرح وہاں سب کو تڑپاتے اور مجھے رلاتے رہے ہو۔ ہمارا اقبال بھی تو جان لے۔‘‘

یہ مرگ مفاجات کی صورت تھی۔ نظم سنانی ہی پڑی۔ مجھے یاد ہے میں نے خود بھی اس سے پہلے کبھی ایسا لطف اس نظم سے نہیں لیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب حقہ پیتے رہے، نظم سنتے رہے۔ بعض شعروں کو دوبارہ بھی پڑہوایا۔ جب تک میں ٹیگور کی خواب آور شاعری کا حسن اور اس کا اثر اپنی ذات پر بیان کرتا رہا۔ وہ بار بار بہت خوب کہتے رہے۔

پھر جہاں میں نے اقبال کی شاعری کو ایک تلاطم خیز دریا کہا اور ٹیگو رکی پر بہار نہر یاندی کو چھوڑ کر اس دریا کے کنارے کنارے ڈگمگاتے ہوئے چلنے کے شعر سنائے تو علامہ میری طرف حیرت اور غور سے دیکھنے لگے۔ جب یہ شعر آیا کہ:

درد کی چیخیں اٹھیں میرے شکستہ ساز سے

’آب دیدہ ہو گیا دریا مری آواز سے‘

تو مکرر پڑھنے کی فرمائش کی میں نے دیکھا سید راس مسعود ہی کی نہیں علامہ اقبال کی آنکھیں بھی پرنم تھیں۔ یہ شعر کئی مرتبہ پڑھنے کے بعد میں نے یہ شعر سنایا:

’میرا نغمہ نغمہ دریا سے کم آواز تھا‘

’ہاں مگر ہم رنگ و ہم آہنگ و ہم آواز تھا‘

تو ڈاکٹر صاحب کے منہ سے بے اختیار نکلا:

’’ ہم رنگ بھی، ہم آہنگ بھی

بلند آواز، بلند آواز، بہت شیریں‘‘

نظم ختم ہوئی تو سر راس مسعود نے مجھے بغل گیر کر لیا۔ میرا ماتھا چوما کہا دیکھا اقبال، میرا بیٹا، اللہ نے حالی کا بدل ہمیں عنایت کر دیا ہے۔

آج یہ الفاظ لکھتے ہوئے اے کاش سر راس مسعود ہی میرے تلخ آنسوؤں کو دیکھ سکتے!

مجھے اس تقریب سعید پر ناز کیوں نہ ہو، میں عمر بھر اس کو بھول نہیں سکتا۔ ہاں میں بھول نہیں سکتا کہ ایک نظم تو کم از کم میں نے زندگی میں ایسی بھی لکھی ہے جس کو اقبال نے فقط سنا ہی نہیں، پسند کیا بلکہ متاثر بھی ہوئے اور بقول تاثیر اپنی ایک نظم میں میری بندش کے الفاظ بھی استعمال فرمائے۔ (تن تیرا نہ من)

نظم ہو چکی۔ میں نے حقہ کو ہاتھ نہیں لگایا۔ چائے البتہ آج دو بسکٹوں کے ساتھ خوشی شکم رسید کر ڈالی۔

حضرت نے کہا یہ پہلی نظم ہے جس میں کسی ہندوستانی شاعر نے میرے کلام کی روح بیان کی ہے پھر مجھ سے اس کی نقل طلب کی۔ میں نے اسی وقت بیٹھ کر نقل کر دی۔

بعد ازاں ایک دن آیا کہ علامہ نے مجھے جالندھر سے علی بخش کو بھیج کر طلب فرمایا۔ میں حاضر ہوا تو آپ درد گردہ میں مبتلا تھے اور بہت ہی بیمار مجھے دیکھتے ہی کراتے ہوئے بولے:

’’ آ گئے حفیظ جی، بیٹھ جاؤ‘‘

میں بیٹھ تو گیا ’’ یہ درد گردہ شاید جان لے کے رہے‘‘

پھر کہا:’’ حفیظ! تم میرا مرثیہ لکھنا‘‘

یہ سن کر میری چیخیں نکل گئیں۔ عرض کیا: میری اور مجھ ایسے ہزاروں کی جانیں خدا آپ کی عمر میں جوڑ دے گا۔ یہ آپ کیا فرماتے ہیں آپ کو آرام آ جائے گا۔

وہ بہت رنجور تھے پہلے تو خاموش رہے پھر فرمایا: کوئی نعت سناؤ میں نے ’’ میرا سلام لے جا‘‘ سنائی علامہ زار زار روتے رہے۔ ہر بند کو دو دو مرتبہ سنتے اور روتے پھر کہا: شاہنامہ میں سے ولادت رسولؐ کے اشعار سناو۔ میں نے سنائے اب ان کو ذرا سکون سا ہوا۔ فرمایا: میرے لیے دعا کرو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button