کیا بائیڈن عراق کو تقسیم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہوں گے؟
اگرچہ امریکہ میں صدارتی الیکشن مہم کے دوران نہ تو ڈیموکریٹک پارٹی اور نہ ہی ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں نے الیکشن کے نتائج پر منفی اثرات سے بچنے کیلئے عراق کے موضوع پر کوئی بات نہیں کی لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ عراق ان کی نظر میں اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ دونوں صدارتی امیداور امریکہ کی خارجہ سیاست میں عراق کی اہمیت سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن نے عراق کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے مختلف قسم کی حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔ الیکشن سے ہٹ کر دیگر مواقع پر سامنے آنے والے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں امریکی سیاستدان عراق کی تقسیم کے خواہاں ہیں۔ اب صدارتی الیکشن ختم ہو جانے اور جو بائیڈن کی ممکنہ جیت کے بعد انہیں عراق کے بارے میں اپنا موقف واضح کرنا ہو گا۔
جو بائیڈن عراق کو تین مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کا نظریہ رکھتے ہیں۔ کرد اکثریتی، سنی اکثریتی اور شیعہ اکثریتی حصے۔ ہر حصہ اپنے طور پر نیم خودمختار ریاست تشکیل دے گا۔ جو بائیڈن اب تک 27 بار عراق جا چکے ہیں اور عراق کی بعض سیاسی شخصیات کے ساتھ ان کے انتہائی قریبی تعلقات استوار ہیں۔ لہذا عین ممکن ہے کہ وہ عراق سے متعلق امریکی اہداف کی تکمیل میں ڈونلڈ ٹرمپ سے کہیں زیادہ کامیاب ثابت ہوں۔ قطر کے اخبار العربی الجدید کے کالم نگار ایاد الدلیمی اس بارے میں لکھتے ہیں: "امریکی ووٹرز نے اس بار وائٹ ہاوس میں ایک ڈیموکریٹ کو لانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یوں امریکہ اور دنیا پر چار سالہ سخت دور کا خاتمہ کر سکیں۔ ابھی ڈونلڈ ٹرمپ کا چار سالہ دور اختتام پذیر نہیں ہوا تھا کہ امریکی ووٹرز نے ان سے منہ موڑ لیا۔”
انہوں نے نئے امریکی صدر سے وابستہ توقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "وائٹ ہاوس میں داخل ہونے کے منتظر ڈیموکریٹ جو بائیڈن سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ ملکی اور عالمی سطح پر امریکہ کی پالیسیوں میں بہت زیادہ تبدیلیاں لائیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کے باعث امریکہ کا چہرہ اس قدر بگڑ چکا ہے انہیں اس مقصد میں بہت زیادہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔” ایاد الدلیمی نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ امریکہ کے حالیہ صدارتی الیکشن میں دونوں صدارتی امیدواروں نے عراق کے بارے میں کچھ نہیں بولا۔ وہ مزید لکھتے ہیں: "نئے امریکی صدر کی میز پر ایک مستقل ایشو عراق کا ہو گا۔ ایک ڈیموکریٹ صدر جس نے جارج بش کے دور میں عراق کے خلاف جنگ کے حق میں ووٹ دیا تھا اور بعد میں اپنی رائے تبدیل کر لی تھی۔”
الدلیمی نے عراق کے بارے میں جو بائیڈن کے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا: "یہ ڈیموکریٹ عراق کو توڑ کر اسے تقسیم کرنے کے حق میں تھا۔ 2006ء میں جب وہ سینیٹ کے رکن تھے اور عراق میں امریکی فوجی اسلامی مزاحمتی قوتوں کی زد میں تھے تو بعض دن ایسے بھی تھے جب امریکی فوجیوں پر ایک دن میں ایک ہزار حملے ہوتے تھے۔ ان دنوں بائیڈن نے عراق کو تین نیم خودمختار ریاستوں میں تقسیم کر دینے کا مشورہ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس تقسیم کے نتیجے میں امریکی فوجی 2008ء تک عراق سے انخلا انجام دے سکتے ہیں ورنہ عراق خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا جس کے باعث خطے میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔” وہ مزید لکھتے ہیں: "جو بائیڈن کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور اس تاریخ کے کچھ عرصہ بعد ہی عراق میں بدامنی شروع ہو گئی جو دو سال تک جاری رہی۔
سامرا میں امام علی نقی (علیہ السلام) کے مزار شریف میں بم دھماکہ ہوا اور اس کے بعد شدت پسندی کا آغاز ہو گیا۔ اس اندرونی کشمکش کے باعث اسلامی مزاحمتی فورسز کی جانب سے امریکی فوجیوں پر دباو میں کمی واقع ہوئی۔ یوں ہم ایک ایسی فرقہ واریت اور لسانی تعصب میں داخل ہو گئے جس کی منصوبہ بندی امریکہ کے گھاگھ سیاست دانوں، جن میں شاید جو بائیڈن بھی شامل تھے، کی جانب سے کی گئی تھی۔ امریکی صدر کے عہدے پر براجمان ہونے والا یہ نیا شخص گذشتہ امریکی حکومتوں کی میراث کا مالک ہے۔ عراق کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے جس نے گذشتہ کئی سالوں سے امریکی حکمرانوں کو دباو میں ڈال رکھا ہے۔ بائیڈن 27 مرتبہ عراق جا چکے ہیں اور عراقی سیاست دانوں سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔ لہذا توقع کی جا رہی ہے کہ ان کی پالیسی ٹرمپ سے مختلف ہو گی۔”
العربی الجدید کے کالم نگار لکھتے ہیں: "درست ہے کہ جو بائیڈن عراق کو تین نیم خودمختار حصوں میں تقسیم کرنے کے خواہاں ہیں لیکن شاید اب وہ اپنے اس منصوبے پر عمل پیرا ہونے کے زیادہ خواہش مند نہ ہوں۔ خاص طور پر یہ کہ موجودہ حالات میں امریکہ کے مفادات ایک متحدہ عراق پر منحصر ہیں۔ البتہ ایران کی جانب سے عراق میں امریکی اثرورسوخ کے مقابلے میں مزاحمت کی صورت میں بائیڈن کی جانب سے دوبارہ اس منصوبے کی جانب واپسی ممکن ہے۔ اگلا امریکی صدر عراق میں امریکہ کے کھو جانے والے مفادات کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ خاص طور پر یہ کہ عراق کی بعض سیاسی شخصیات ایسی ہیں جو اعلانیہ طور پر قومی اور لسانی بنیادوں پر فیڈرل نظام حکمفرما ہونے پر زور دیتے ہیں۔
تحریر: علی احمدی