عیسائی یہودی تعلقات اور بین الاقوامی سیاست
عیسائی یہودی تعلقات اور بین الاقوامی سیاست بین الاقوامی تعلقات میں ادیان کا نام بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ سیاسی اصطلاح میں جسے دینی و مذہبی کارڈ کہتے ہیں اسکا استعمال ملکوں کی اندرونی سیاست اور بین الاقوامی معاملات میں کیا جاتا رہا ہے۔ البتہ ادیان یا مذاہب کے نام کا استعمال بھی انسانیت دشمن و اسلام دشمن مقاصد کے لیے ہی کیا جاتا رہا ہے۔
عیسائی شہریوں کی اپنی کیا وقعت ہے
امریکا، برطانیہ اور فرانس کرسچن یعنی عیسائی اکثریتی ممالک ہیں۔ لیکن ان ملکوں میں عیسائی شہریوں کی اپنی کیا وقعت ہے، اس کا بھی جائزہ لے لیں۔ ایشیائی، افریقی نژاد، لاطینی و عرب نژاد عیسائی شہریوں کی امریکاو برطانیہ و فرانس میں کوئی ایسی حیثیت نہیں کہ جسے قابل ذکر کہا جاسکے۔
چلیے آپ ان ممالک کی حکومتوں کا یہ بیانیہ مان لیں کہ ان ممالک میں دین و سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مزید یہ بھی مان لیں کہ فرانس میں سیکولر ازم کا راج ہے۔
عیسائی یہودی تعلقات اور بین الاقوامی سیاست
یہ سب مان لینے کے بعد کوئی امریکا سے پوچھے کہ سیاہ فام یا غیر سفید فام عیسائیوں پر سفید فام عیسائیوں (کرسچن) کو برتری کیوں حاصل ہے؟ اور بحیثیت ایک شہری جب وہ ایک ہم مذہب عیسائی کو سفید فام عیسائی کی طرح برابر کے شہری حقوق بھی دینے کے روادار نہیں تو پھر یہودی ان سارے ممالک میں ان سفید فام عیسائیوں سے بھی برتر حیثیت کے حامل کیسے ہوجاتے ہیں!؟۔
برطانیہ، فرانس اور امریکا نسل پرستانہ مائنڈ سیٹ
برطانیہ، فر انس اور امریکا کی اس نسل پرستانہ مائنڈ سیٹ کی کیا توجیہ پیش کی جاسکتی ہے!؟۔ یہ عرب دنیا میں بھی عیسائی (یعنی کرسچن) کمیونٹی کا قتل عام کرتے آئے ہیں۔ مسلمانوں سے انکی نفرت، بغض، کینہ و دشمنی کی وجہ تو دین کا اختلاف کہاجاسکتا ہے، لیکن فلسطین، شام، لبنان اور عراق میں تو عیسائی یعنی کرسچن کمیونٹی کے ساتھ تو انکا کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا۔
کھلی منافقت کے پس پردہ اصل وجوہات
کیوں!؟ ایسا کیوں ہے!؟ اصل میں محققین اس پر تحقیقی مقالے لکھیں جس میں عیسائی دنیا کی اس تلخ حقیقت بلکہ کھلی منافقت کے پس پردہ اصل وجوہات سامنے لائیں۔ یہ ایسا اہم کام ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
عیسائی یہودی تعلقات
بین الاقوامی تعلقات اور مغربی ادبیات میں مغرب یعنی یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا، کینیڈا و آسٹریلیا اور یورپی ممالک کو مغرب یا مغربی بلاک کہتے ہیں۔ اور اس مغربی تہذیب و تمدن کو یہودی و عیسائی تہذیب و تمدن کہتے ہیں۔
جب یہ پوری مغربی دنیا جوڈیوکرسچن سولائزیشن ہے تو پھر ان سارے ملکوں سے یہودیوں کو فلسطین میں آنے یا لانے کا اصل سبب کیا ہے!؟۔
بین الاقوامی سیاست
اور جو عیسائی بڑی طاقتیں خود اپنے ہی ملکوں میں عیسائیوں کو ہی برابر کا شہری تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، وہ بڑی طاقتیں یہودیوں کے آگے سجدہ ریز کیوں ہیں!؟
منطقی رائے یا سوال کرنا تک ممنوع کیوں
کہنے کو فرانس سیکولر ملک ہے تو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان اقدس میں اہانت کرنے کی اجازت اور ہولوکاسٹ یا یہودیوں کے جھوٹے دعووں سے متعلق منطقی رائے یا سوال کرنا تک ممنوع کیوں ہے!؟۔ دنیا کے ڈیڑھ دو ارب مسلمانوں کے متفقہ عقیدہ ختم نبوت اور متفقہ خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کے خلاف اہانت آمیز کارٹون، تقریر و تحریر کرنا تو ممنوع نہیں ہے۔
مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے لیے ہی لمحہ فکریہ
یہودیوں سے متعلق یہ حساسیت اور وہ بھی ان عیسائیوں کو کہ جو خود عیسائیوں کے حقوق کے قائل نہیں، کیایہ سب کچھ عجیب و غریب نہیں!؟ ابراہام اکارڈ کے نام پر بھی صرف اور صرف زایونسٹ اسرائیلی یہودیوں کے مفاد میں آناً فاناً ہر رکارٹ دور کردینا، یہ سب کچھ مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے لیے ہی لمحہ فکریہ ہے۔
ہر مظلوم انسان کو دہشت گردوں اور بیرونی جارحیت سے بچایا
حاج قاسم سلیمانی اور حزب اللہ لبنان سمیت مقاومت اسلامی کے محور سے تعلق رکھنے والے جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر فلسطین و لبنان و شام و عر اق و یمن سمیت ہر جگہ ہر مظلوم انسان کو دہشت گردوں اور بیرونی جارحیت سے بچایا۔
مغربی طاقتیں خود اندر سے یہودی لابی کی غلام
دنیا کو یہ حقیقت بتانے کی ضرورت ہے کہ امریکا، برطانیہ، فرانس سمیت یہ بڑی مغربی طاقتیں خود اندر سے یہودی لابی کی غلام ہیں۔ یہ اپنے یہودی آقاؤں کے ناجائز مفاد کے حصول کا ایندھن ہیں۔ یہ وہ بے غیرت اور بے ضمیر ہیں کہ جنہیں عیسائی فلسطینیوں، عیسائی شامیوں، عیسائی لبنانیوں سے کوئی ہمدردی نہیں کیونکہ وہ اسرائیل سے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔