کیا امریکہ میں مارشل لاء آنے والا ہے؟
امریکہ کا دعوی ہے کہ ہمارے ملک میں دنیا کا جمہوری ترین حکومتی نظام نافذ ہے اور اسی بنیاد پر وہ دیگر ممالک پر غیر جمہوری رویوں اور بند سیاسی ماحول ہونے کے ناطے تنقید کرتا رہتا ہے۔ لیکن اب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے خود امریکہ میں ایسی فضا جنم لے رہی ہے جس میں بعض فوجی رہنما موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار میں باقی رکھنے کیلئے فوجی طاقت استعمال کرنے کی باتیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیا کے سامنے یہ ظاہر کرتے کی کوشش کی ہے کہ وہ اقتدار میں باقی رہنے کیلئے طاقت کے استعمال کے مخالف ہیں لیکن بعض حلقے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ایسی باتیں شروع کروانا خود ڈونلڈ ٹرمپ کا ہی ایک حربہ ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر فوجی طاقت استعمال کرنے کے مقدمات فراہم ہو چکے ہوں۔
وائٹ ہاوس سے نکلنے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ایک ماہ سے بھی کم عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے مشیروں کے گذشتہ چند ہفتوں میں سامنے آنے والے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اقتدار میں باقی رہنے کیلئے ہر قسم کا ہتھکنڈہ بروئے کار لانے کیلئے تیار ہیں۔ حال ہی میں ایسی خبریں سامنے آئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مشیروں سے صدارتی انتخابات کے نتائج میں تبدیلی کیلئے فوج کی مدد حاصل کرنے کے بارے میں مشورہ کیا ہے۔ یہ خبریں منظرعام پر آنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کی توجیہات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ رویٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر پیغام میں اس قسم کی خبریں پھیلانے والوں پر جان بوجھ کر غلط رپورٹس شائع کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
امریکی صدر نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا: "مارشل لاء = جعلی خبر۔ یہ جان بوجھ کر غلط رپورٹس شائع کرنے کا ایک اور اقدام ہے۔” امریکی ذرائع ابلاغ نے اتوار کے دن خبر دی کہ ڈونلڈ ٹرمپ مارشل لاء لگانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ سی این این نے اپنی رپورٹ میں کہا: "ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے کچھ مشیروں اور اتحادیوں سے میٹنگ کی ہے جس میں الیکشن کے نتائج تبدیل کرنے کیلئے مارشل لاء لگائے جانے کا آپشن زیر غور لایا گیا ہے۔” ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس رپورٹ کے بارے میں فوری ردعمل ظاہر کیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے ان کی کابینہ میں وائٹ ہاوس کے سب سے پہلے قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلین نے یہ مشورہ دیا تھا کہ امریکی صدر صدارتی الیکشن تبدیل کرنے کیلئے مارشل لاء کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔
الیکٹورل کالج کی جانب سے صدارتی الیکشن میں جو بائیڈن کی کامیابی کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ حتی سینیٹ میں اکثریت کی حامل ریپبلکن پارٹی کے سربراہ اور کانگریس کے اعلی سطحی ماہرین قانون نے بھی جو بائیڈن کی کامیابی کا اعتراف کر لیا ہے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اب بھی اپنے اس موقف پر بضد ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی والوں نے وسیع سطح پر دھاندلی انجام دی ہے۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ بظاہر الیکشن کے نتائج تبدیل کرنے کیلئے طاقت کے ممکنہ استعمال کو مسترد کر رہے ہیں لیکن انہوں نے بارہا آنے والے دنوں میں اپنے حامیوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہونے کی اطلاع دی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایسے وقت اقتدار میں باقی رہنے پر اصرار کر رہے ہیں جب حتی ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اعلی سطحی حکومتی عہدیداروں نے ان سے اپنی شکست تسلیم کر لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز ملک کی بعض ریاستوں میں مارشل لاء کے نفاذ کے بارے میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے: "ڈونلڈ ٹرمپ نے مائیکل فلین کو ہدایت کی تھی کہ جمعہ کے روز وائٹ ہاوس میں منعقد ہونے والی میٹنگ میں اس آپشن پر بھی غور کیا جائے۔ یہ میٹنگ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جو بائیڈن کے مقابلے میں اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کی تازہ ترین کوشش ہے۔” حتی امریکہ کی عدالت عالیہ نے بھی دھاندلی کے شبہے میں حالیہ صدارتی الیکشن کے نتائج کالعدم قرار دینے پر مبنی درخواست مسترد کر دی ہے۔ امریکہ میں مارشل لاء نافذ کئے جانے کا خطرہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اس ملک کا دعوی ہے کہ وہاں دنیا کا آزاد ترین سیاسی نظام حکمفرما ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے صدارتی الیکشن کے نتائج قبول کرنے سے انکار کر دینے کی وجہ سے حکومتی ذمہ داران کی بڑی تعداد شدید پریشانی کا شکار ہو گئی ہے۔ نیوز ویب سائٹ "ایکسیاس” نے امریکہ کے چند اعلی سطحی حکومتی عہدیداروں کے بقول لکھا: "ڈونلڈ ٹرمپ زیادہ تر وقت ایسے افراد کے ساتھ گزارتے ہیں جو سازش پر مبنی مفروضے بنانے اور وہمی ہونے کے طور پر مشہور ہیں۔ وہ امریکی صدر کو طاقت کے بے جا استعمال پر اکسا رہے ہیں۔” گذشتہ چند ہفتوں میں بڑی تعداد میں امریکی تجزیہ کاران نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر پریشانی کا اظہار کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اقتدار کی منتقلی پرامن طریقے سے نہیں ہو گی۔ دوسری طرف خود ریپبلکن پارٹی کے عہدیداران نے بھی مارشل لاء پر مبنی آپشن کو بہت بڑی غلطی قرار دی ہے۔
تحریر: علی احمدی