پاکستان کے خلاف تکفیریوں کے کرتوتوں کا ایک اور ثبوت
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) گذشتہ ماہ بلوچستان کے علاقے مچھ میں شیعہ ہزارہ کان کنوں کو بے دردی سے اغوا کرکے کند آلے سے گردنیں کاٹ کر قتل کر دیا گیا۔ جس کے بعد حکومت اور مقتدر حلقوں کی طرف سے بتایا گیا کہ بھارت پاکستان میں داعش کے نام پر لشکر جھنگوی اور تکفیری دہشت گردوں کو منظم اور متحد کرکے ان کی پشت پناہی کر رہا ہے اور یہ عناصر بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایما پر پاکستانی سکیورٹی فورسز اور عوام کو قتل کر رہے ہیں۔ بالخصوص اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ بھارت کی طرف سے اس دہشت گردی کا مقصد پاکستان میں مذہبی فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینا ہے، تاکہ پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کیا جا سکے۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ بھارتی ہندو بنیئے نے تخلیق پاکستان کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ بھارت کی ہمیشہ کوشش رہی کہ پاکستان کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے لیکن یہ دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔
پاکستان کا خطے میں بڑھتا ہوا کردار نہ بھارت کو ہضم ہو رہا ہے، نہ ہی سعودی اور اسرائیلی ٹکڑوں پر پلنے والے تکفیری گروہوں کو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کروانے کی آڑ میں سعودی عرب سمیت خلیجی عرب ممالک کو سی پیک منصوبہ برداشت نہیں۔ اسی لیے اسرائیل اور پاکستان کیخلاف برسر پیکار تکفیری قاتل گروہوں کیخلاف عرب ممالک پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ دراصل پاکستان کو اندر سے کمزور کرنے کے اسرائیلی اور بھارتی مشن کو مکمل کرنے میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ایک طرف بھارتی افواج اور دہشت گردانہ ذہن رکھنی والی حکومت بھارتی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ تور رہی ہیں اور کشمیریوں کی زندگی جہنم بنا رکھی ہے، اس عمل میں بھی خلیجی عرب ممالک خاموش ہیں، جس کا یہی مطلب ہے کہ پاکستان سے کچھ منوانا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان کے اندر دہشت گردی کیخلاف برسرپیکار پاکستانی مسلح افواج کو الجھانے کیلئے کالعدم لشکر جھنگوی اور کالعدم تحریک طالبان کو بھارت کیساتھ مل کر منظم اور مضبوط بنا رہے ہیں۔ تاکہ پاکستان اندرونی طور پر افراتفری اور عدم استحکام کا شکار ہو، جس کے بعد معاشی بدحالی اور کمزوری کی وجہ سے ترقی کی کوئی منزل طے نہ کرسکے اور سی پیک تعطل کا شکار ہو، اس حد تک کہ پاکستان اس سے دستبردار ہو جائے۔ تیسرا فریق امریکہ ہے، جو پاکستان کو سزا دینا چاہتا ہے۔ پاکستان چین کا دیرینہ دوست ہے۔ اس وقت سی پیک امریکہ کی آنکھ میں کھٹکتا ہے۔ امریکہ افغانستان میں غاصبانہ قبضے کو جاری رکھے ہوئے اور مقامی مزاحمت اب امریکہ کی برداشت سے باہر ہے، لیکن چین، وسط ایشیا، روس اور ایران پر دباو برقرار رکھنے کیلئے امریکہ افغانستان میں سکون سے رہنا چاہتا ہے، جو اب محال ہے۔
یہ بھی پڑھیں جو قوتیں مذہبی آزادی کے آئینی حق پر قدغن لگانا چاہتی ہیں انہیں ملت تشیع کی طاقت کا اندازہ نہیں،علامہ راجہ ناصرعباس
اس لیے بھارت، اسرائیل، خلیجی عرب ممالک اور امریکہ مشترکہ محاذ بنا کر کئی طریقوں سے پاکستان کیخلاف اندرونی اور بیرونی طور پر سیاسی، معاشی اور سلامتی کے مسائل پیدا کرنیکی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن الحمد اللہ اب ضیائی آمریت نہیں، نہ ہی پاکستان عوام کو ہائبرڈ وار کے ذریعے ورغلا جا سکتا ہے، جیسا کہ بنگلہ دیش میں ہوا۔ دوسری جانب پاکستان نے دہشت گردوں کا مکمل طور پر قلع قمع کر دیا ہے۔ اب قبائلی علاقہ جات، بلوچستان اور کراچی میں کوئی ایسی جگہ نہیں، جو نو گو ایریا ہو۔ ساتھ ہی افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے کا کام بھی مکمل ہوچکا ہے۔ ایران کیساتھ تجارتی راستے کھولے گئے ہیں، چین کیساتھ سی پیک منصوبوں پر کام جاری ہے، دہشت گردی کے ہر وار کو پاکستانی قوم مل کر اور متحد ہو کر برداشت کر رہی ہے۔ بھارتی ایما پر تکفیری دہشت گردوں کا نشانہ بننے والوں کی دل جوئی اس کی اچھی مثال ہے۔
اسی طرح حال ہی میں پاکستان کو سفارتی محاذ پر ایک بڑی کامیابی ملی ہے۔ گذشتہ سال نومبر میں پاکستان نے اقوام متحدہ کو بھارتی کارستانیوں کے بارے میں ڈوزیئر دیا تھا، آج اقوام متحدہ کی تجزیاتی اور مانیٹرنگ ٹیم نے اس کی تصدیق و تائید کر دی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنیوالے عناصر کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اب جا کر اقوام متحدہ نے تحریک طالبان پاکستان اور جے یو اے کو پاکستان کے لیے خطرہ تسلیم کر لیا۔ دنیا نے پاکستان کا مؤقف تسلیم کر لیا اور اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی سلامتی کونسل کے لیے تیار کردہ 27ویں رپورٹ جاری کر دی گئی، جس میں اقوام متحدہ نے بھارتی حمایت سے دہشت گرد تنظیموں کے نئے اتحاد کے بارے میں پاکستان کے مؤقف کی توثیق کر دی۔
پاکستان کیخلاف دہشت گردوں کے اکٹھے ہونے پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے ڈوزیئر پیش کیا تھا۔ اقوام متحدہ نے افغانستان میں مقیم دہشت گرد گروپوں کالعدم ٹی ٹی پی اور جے یو اے کو پاکستان کے لیے خطرہ تسلیم کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم دہشت گرد گروپ تحریک طالبان پاکستان 3 سال میں 100 سے زائد سرحد پار حملوں میں ملوث رہا جبکہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے لاحق خطرات کے بارے میں مسلسل آگاہ کیا جاتا رہا۔ ٹی ٹی پی کے منقسم دھڑوں کو بھارت کی حمایت سے افغانستان میں دوبارہ اکٹھا کیا گیا اور 5 دہشت گرد گروپوں نے پچھلے سال تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ دہشت گرد گروپوں میں شہریار مسعود گروپ، جماعت الاحرار، حزب الاحرار، امجد فاروقی گروپ اور عثمان سیف اللہ گروپ (لشکر جھنگوی) شامل ہیں۔
دہشت گرد گروپوں کی شمولیت سے پاکستان اور خطے میں دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ ہوا جبکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی قوت میں اضافے سے پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں بھی اضافہ ہوا۔ تحریک طالبان پاکستان جولائی اور اکتوبر 2020ء کے دوران 100 سے زائد سرحد پار حملوں کی ذمہ دار ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دہشتگردی کے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ نے پاکستان کے دیرینہ موقف کی تائید کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کی تجزیاتی اور مانیٹرنگ ٹیم کی 27 ویں رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی سمیت دیگر جماعتوں کا افغانستان میں موجود عناصر سے رابطہ ہے، پاکستان اور خطے کو ان گروپوں سے خطرات لاحق ہیں، ان میں افغانستان میں موجود دیگر کالعدم گروپس بھی شامل ہیں۔ پاکستان ماضی میں عالمی برادری کی ان گروپس کے متعلق توجہ مبذول کراتا رہا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں پاکستان مخالف عناصر کی ملی بھگت کو بے نقاب کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ افغانستان سے پیدا شدہ خطرے کے خاتمے کیلئے مربوط کوششوں کا آغاز ہوگا۔ پاکستان ایک ذمہ دار ملک کے طور پر عالمی برادری کے ساتھ مل کر دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہے۔ اقوام متحدہ نے دہشت گردی میں ملوث عناصر کے خلاف پاکستانی حکومت کی کوششوں کا اعتراف کرلیا ہے جبکہ ساتھ ہی خبردار کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) گذشتہ برس 3 ماہ میں 100 سے زائد حملے کرچکی ہے۔ اقوام متحدہ کے دہشت گردی پر نظر رکھنے والے ادارے کی جانب سے 3 فروری کو جاری کی گئی سلامتی کونسل کی 27 ویں رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ پاکستان دہشت گردی کے لیے مالی تعاون کرنے والے افراد کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ مطلوب افراد اور جائیدادوں کے خلاف بھی کارروائی کر رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے منحرف گروپوں کا دوبارہ اتحاد تشویش کا باعث ہے، جن میں جولائی اور اگست 2020ء میں شہریار محسود گروپ، جماعت الاحرار، حزب الاحرار، امجد فاروقی اور سابق لشکر جنگھوی عثمان سیف اللہ گروپ سمیت 5 گروپوں کا اتحاد شامل ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ مذکورہ گروپوں کے اتحاد سے نہ صرف پاکستان کے اندر دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے، بلکہ پورے خطے کے لیے خطرے کا باعث ہے، جب سے ٹی ٹی پی کی طاقت میں اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں حملوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ جولائی اور اگست 2020ء کے دوران سرحد پار سے 100 سے زائد حملوں کی ذمہ دار بھی ٹی ٹی پی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی افرادی قوت 2 ہزار 500 اور 6 ہزار اراکین پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں اب ضرورت اس امر کی ہے دنیا دہشت گردی کیخلاف پاکستان کا ساتھ دے۔
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ