مضامینہفتہ کی اہم خبریں

امریکہ کی سعودی عرب کیلئے نئی پالیسی

سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 76 سعودی عہدیداروں کیخلاف امریکہ نے پابندیاں عائد کر دی ہیں، تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے واضح نہیں کیا کہ اس کیس کے مرکزی ملزم محمد بن سلمان کا نام بھی ان 76 افراد میں شامل ہے یا نہیں۔ امریکہ ان 76 افراد کو ویزہ جاری نہیں کرے گا، دوسرے لفظوں میں ان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مذکورہ 76 افراد میں وہ سعودی شہری بھی شامل ہیں، جو امریکہ میں مقیم سعودی شہریوں کو دھمکیاں دینے میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ یعنی کسی بھی ملک میں بیٹھ کر اگر کوئی سعودی شہری اپنی (سعودی) حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے، تو آلِ سعود کی نظر میں وہ باغی اور سعودی عرب کا دشمن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے حکمرانوں بالخصوص محمد بن سلمان نے ایک ایسی فورس بنا رکھی ہے، جو دنیا کے دیگر ممالک میں سعودی شہریوں پر نگاہ رکھتی ہے اور ضرورت پڑنے پر جمال خاشقجی کی طرح انجام کو پہنچا دیتی ہے۔ جمال خاشقجی چونکہ ایک صحافی تھے اور ان کی منگیتر بھی ساتھ تھی، اس لئے ان کا معاملہ میڈیا میں آگیا، جبکہ ایسے ہزاروں افراد قتل ہوچکے ہیں، جن کا نام و نشان بھی نہیں چھوڑا گیا۔

واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان سے جب اس فہرست میں محمد بن سلمان اور شامل دیگر افراد کے ناموں کا پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ وہ تفصیلات بتانے کی پوزیشن میں نہیں اور نہ ہی مستقبل میں اس فہرست کو اوپن کیا جائے گا۔ ساتھ ہی ترجمان وائٹ ہاوس کا کہنا تھا کہ ہم محمد بن سلمان کا نام ظاہر کرکے امریکہ سعودیہ تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے۔ امریکہ کی نئی انتظامیہ کے اس رویئے اور پالیسی سے لگتا ہے کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ اب سعودی عرب کی گائے کو اپنے انداز میں دوہنا چاہتی ہے۔ ٹرمپ نے دوستی قائم کرکے اپنا اسلحہ فروخت کیا۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی اسلحہ بہت خوبصورت ہے، اسلحہ بھی خوبصورت ہوتا ہے؟؟ جو اسلحہ بے گناہ شہریوں کو موت کی وادی میں دھکیل دے، اسے خوبصورت کہا جا سکتا ہے؟؟ بہرحال ٹرمپ نے اپنا اسلحہ فروخت کیا اور بھاری مقدار میں فروخت کیا۔ اب امریکہ کی نئی انتظامیہ (جو کسی طور مسلمانوں کی خیر خواہ نہیں ہوسکتی) اپنے نئے انداز کیساتھ سعودی عرب کو اپنے شکنجے میں پھنسا رہی ہے۔

جو بائیڈن انتظامیہ جمال خاشقجی کا کارڈ کھیل کر محمد بن سلمان کو رام کرے گی، اس بلیک میلنگ میں اپنی من مرضی کے فوائد سمیٹے گی اور چلتی بنے گی۔ سعودی عرب بس دیکھتا ہی رہ جائے گا کہ اس کیساتھ ہوا کیا ہے۔ اب بھی سعودی عرب کے حکمران حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ ٹرمپ نے انہیں بے وقوف بنائے رکھا۔ سعودی حکمرانوں کو ٹرمپ کے جانے کے بعد اس کی اصلیت یاد آرہی ہے۔ اب تو ایک فہرست تیار کی گئی ہے کہ ٹرمپ نے آل سعود کو کہاں کہاں اور کیسے کیسے استعمال کیا۔ اس جائزہ فہرست کے مطابق اب سعودی عرب نئی پالیسی ترتیب دے گا، مگر امریکہ کی جانب سے جو نیا کارڈ کھیلا جا رہا ہے، اس میں محمد بن سلمان آسانی سے جال میں پھنس جائیں گے۔ ایسی فضا بنا دی جائے گی کہ محمد بن سلمان خود امریکہ سے کہیں گے کہ مذکورہ 76 افراد کی فہرست کو ‘‘داخل دفتر’’ کر دیا جائے، وہ امریکہ کی ہر بات ماننے کو تیار ہیں۔

امریکہ میں کوئی بھی حکمران برسراقتدار ہو، پالیسی ایک ہی رہتی ہے کہ مسلمانوں کے وسائل لوٹنے ہیں، وہ اس میں انداز بدل بدل کرکے وار کرتے ہیں اور کامیاب رہتے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کی اس روش کو سادگی سمجھیئے یا مجبوری کہ انہیں اپنی کرسی کی بقاء کیلئے امریکہ کے سامنے جھکنا پڑتا ہے اور یہ مسلم حکمران اسی خوش فہمی کا شکار ہیں کہ امریکہ کی دوستی ہی ان کا اقتدار بچا سکتی ہے، حالانکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ایران امریکہ کا کھلا دشمن ہے، اس کے باوجود امریکہ ایران میں انقلابی حکومت کا بال بھی بیگا نہیں کرسکا۔ ہزار کوشش کے باوجود وہاں احتجاج کی لہر کامیاب ہوئی نہ دوسری سازشیں کوئی نتیجہ دے سکیں۔ امریکہ کی اربوں روپے کی ‘‘سرمایہ کاری’’ ڈوب ہوگئی۔ اس سے مسلم حکمرانوں کو امریکہ کی بے بسی کا اندازہ ہو جانا چاہیئے۔ امریکہ کا سپرپاور ہونے کا دعویٰ کھوکھلا ہے، جس کی بنیاد ریت پر کھڑی ہے۔

امریکہ اپنے ہدف کو نفسیاتی اعتبار سے خوفزدہ کرتا ہے۔ پھر اس خوف سے خود فائدہ اٹھاتا ہے، مثال کے طور پر امریکہ نے سعودی عرب کو ایران سے خوفزدہ کرکے اپنا اسلحہ فروخت کیا۔ اسی طرح طالبان ہوں یا داعش و القاعدہ کا فتنہ، سارا کِیا دَھرا امریکہ کا اپنا ہے، امریکہ نے اس دہشتگرد تنظیموں سے مسلم ممالک کو خوفزدہ کیا اور ان کی سرکوبی کیلئے مسلم ممالک کے وسائل استعمال کئے۔ ایک طرف امریکہ داعش کو عراق و شام میں بدامنی کیلئے استعمال کرتا ہے تو عین دوسری جانب داعش کو اسلحہ و افرادی قوت بھی فراہم کرتا ہے۔ امریکہ کا یہ دوہرا معیار ایک کھلی حقیقت ہے، مگر مسلم حکمرانوں کے دلوں پر شائد مہریں لگی ہیں کہ وہ آنکھوں کے باوجود دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اب امریکہ کی نئی انتظامیہ نے سعودی عرب کیلئے نیا کھیل تیار کیا ہے۔ اس کھیل کے عوض وہ سعودی عرب سے کیا قیمت وصول کرتا ہے، اس کا اندازہ بھی جلد ہی ہو جائے گا۔ کیونکہ اس معاملے میں اکیلا امریکہ سعودی عرب کو اسلحہ نہیں دیتا بلکہ جی ایٹ ممالک بھی اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔

گذشتہ برس جب سعودی عرب میں جی ایٹ کانفرنس ہونے جا رہی تھی تو انسانی حقوق کی تنظیموں نے جی ایٹ ممالک کے سربراہوں پر زور دیا تھا کہ وہ سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت روکیں، سعودی عرب کو یمن میں جارحیت بند کرنے کیلئے قائل کریں، کیونکہ یمن میں سعودی حملوں کے باعث ہزاروں بچے متاثر ہو رہے ہیں، مگر سعودی عرب کیخلاف کوئی بات نہ ہوئی اور سعودی مظالم کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ یمن میں یمنی عوام کی استقامت نے سعودی عرب کو شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ اب سعودی عرب کی یمن میں شکست کے بعد لگتا ہے کہ امریکہ سعودی عرب کو کسی اور محاذ پر الجھانا چاہتا ہے۔ یہ نیا محاذ کون سا ہوگا، یہ امریکہ کی نئی سعودی پالیسی کے خدوخال واضح ہونے پر کھل کر سامنے آجائے گا

تحریر: تصور حسین شہزاد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button