مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

اسرائیل کےخلاف 6 تباہ کن محاذ

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) فلسطینی مسلمانوں کا خون بہا کر ان کی سرزمین پر قبضہ کرنے والی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کواس وقت6 تباہ کن محاذوں کا سامنا ہے۔

اول : مصر کی سرحد سے متصل جنوب میں غزہ کے فلسطینی اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ اپنا دفاع کرسکیں اور اسرائیلی زمینی افواج کو غزہ کے اندر داخل ہونے سے روک سکیں تبھی اسرائیلی افواج ابھی تک غزہ میں جانے کی ہمت نہیں کر رہی ۔ حالانکہ جغرافیائی اعتبار سے غزہ کا علاقہ صحرائی و ہموار ہے جس پر اسرائیل کو زمینی یعنی انفنٹری آرٹلری آرمڈ کور اور فضائی لحاظ سے حملہ کرنا آسان ہے جب کہ غزہ والوں کے پاس دفاع میں 250 کلومیٹر رینج کے بھاری بلاسٹک راکٹ سے لیکر اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل اور بے شمار دیگر بھاری ہتھیار بمع سرنگ موجود ہے۔

دوم : مرکز میں اردن کی سرحد و بیت المقدس سے متصل محمود عباس کی فلسطینی اتھارٹی یعنی مغربی کنارے کے مجاہدین کے پاس راکٹ و بھاری ہتھیار موجود نہیں لیکن ہلکے ہتھیاروں ( کلاشنکوف، گرنیڈ ، اسمال مارٹر اور آر پی جی ) کے ساتھ یہ اسرائیلی فوج کو اچھی طرح انگیج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس شہری علاقے میں اسرائیل فضائی بمباری سے گریز کرے گا کیونکہ قریب میں یہودی آبادکار بھی موجود ہے لہذا جغرافیائی اعتبار سے اربن خد و خال یعنی شہر میں گلیوں کی دو بدو جنگ میں فلسطینی اسنائپر و آر پی جی گھات لگا کر حملوں میں ماہر ہیں۔

یہ خبر بھی پڑھیں فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام، عرب ممالک و ترکی اسرائیل سے تجارت میں مصروف

سوم : اسرائیلی مقبوضہ علاقوں تل ابیب ، یروشلم ، اشکولون سمیت دیگر علاقوں میں موجود عرب مسلمان جن کے پاس جذبہ ایمانی ہے وہ مالٹو بم ( آتشگیر مادہ ) سول نافرمانی ،ریل کی پٹریاں اکھاڑ کر ، یہودی املاک کو آگ لگا کر اسرائیلی فوج کی توجہ اسرائیلی شہروں کے اندر مصروف رکھ سکتی ہے ۔ مزید اسرائیل کے اندر موجود عرب مسلمان اسرائیلی اندر کی صورتحال و جاسوسی کے فرائض باآسانی کرسکتے ہیں۔

چہارم : شمال میں لبنان کے سرحد پر موجود مزاحمت کا استعارہ کسی تعارف کی محتاج نہیں یعنی حزب اللہ اپنے ایک لاکھ سے زائد راکٹوں کے ہمراہ اور کئی سو بلاسٹک گائیڈڈ میزائل ، اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل، زمین سے فضا میں مار کرنے والی میزائل اور زمین سے سمندر پر موجود جنگی بحری جہازوں کو ڈبونے والی کروز میزائل کے علاؤہ حملہ آور خودکش ڈرون سمیت 20 ہزار سے زائد 8 سالہ شام کے خطرناک ترین اربن گوریلا وار فئیر کے تجربے کی حامل تربیت یافتہ فورس کے ہمراہ اسرائیل کی کمر پر آخری وار کیلئے تیار موجود ہے۔ حزب اللہ کیلئے جغرافیائی اعتبار سے برتری یوں بھی ہے لبنانی علاقہ پہاڑی ہے اور اونچائی پر واقع ہے جبکہ اسرائیلی علاقہ نشیب میں ہے اگر حزب اللہ کے کروز میزائل ڈیمونا ایٹمی اڈے سمیت حیفہ میں کیمکل پلانٹ کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اسرائیلی سلامتی کی کمر ٹوٹ جائے گی۔

پنجم : لبنان سے اسرائیل کے ساتھ جنگ چھڑنے کی صورت شمال میں شام و اسرائیل کی سرحد گولان کی پہاڑیوں پر موجود تربیت یافتہ بھاری ہتھیاروں بشمول اینٹی ائیر ڈیفنس سسٹم سے لیس ایرانی شامی افواج اور عراقی کتائب افغانی فاطمیون و پاکستانی زینبیون کے رضاکار لبنان کی جنگ سے اسرائیلی توجہ مبذول کروانے کیلئے اپنا کردار و حصہ جو ادا کریں گے ۔ یہ علاقہ جغرافیائی لحاظ سے پہاڑی ہے اور یہاں پر ایران نے زیر زمیں میزائل بیس بنا رکھا ہے ۔ اتفاق کی بات ہے اس علاقے میں دروز نامی فرقہ کی اکثریت ہے اور جو اسرائیلی مقبوضہ گولان کے علاقے میں بھی موجود ہیں اور وہ شام اور فلسطین سے محبت کرتے ہیں ان کی اسرائیل سے نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں یعنی زمینی جنگ کی صورت میں دشمن کی سول آبادی مجاہدین کا استقبال کرے گی

ششم : یمن کے ایرانی حمایت یافتہ غیر ریاستی عناصر انصار اللہ حوثیوں کے سربراہ بدرالدین الحوثی نے ماضی میں اس سے قبل کئی بار اشارہ دیا تھا وہ اسرائیل کو نشانہ بنائیں گے بالخصوص ایلات پورٹ اور ایلات کا فضائی مستقر جہاں پر اسرائیل اردن سعودی عرب و مصر کی سرحد آکر ایک ساتھ ملتی ہے اور حوثیوں کے پاس 2000 کلومیٹر تک مار کرنے والے جدید ترین لانگ رینج بلاسٹک میزائل ، لانگ رینج کروز میزائل اور لانگ رینج خودکش حملہ آور ڈرون موجود ہے۔ ایران و سعودی عرب کے درمیان مذاکرات ہوچکے ہیں اگر اسرائیل تک پہنچنے کیلئے سعودی عرب اپنی فضائی حدود استعمال کرنے دے تو بہتر وگرنہ اسرائیلی ایلات پورٹ کو حوثی بآسانی نشانہ بناسکتے ہیں ۔ یاد رہے ایلات پورٹ کے سامنے موجود سعودی عرب کا نیا جدید ترین شہر نیوم سٹی پر اس سے قبل بھی حوثیوں کے میزائل آکر لگے ہیں اور بحیرہ احمر میں موجود اسرائیلی کارگو بحری جہاز کی آمد و رفت کو حوثی انصار اللہ کے خودکش بمبار جنگی کشتیاں معطل کرسکتی ہیں ۔ مزید ہماری خفیہ اطلاعات کے مطابق باب المندب کے نذدیک بحیرہ احمر میں یمنی جزیرے پر اسرائیلی فوجی اڈہ قائم ہے جو انڈین اوشن یعنی بحیرہ عرب تک اسرائیلی معاشی و فوجی مفادات کا تحفظ کرتا ہے یہ جزیرہ اسرائیل نے 1967 میں عربوں سے چھینا تھا یوں انصاراللہ حوثی بھی غزہ کے مظلوم فلسطینیوں اور بیت المقدس کے دفاع میں اس جنگ میں اپنا جارحانہ کردار ادا کرسکیں گے ۔

ایران کا بالخصوص شکریہ کہ جب اسرائیل نے 5 جون 1967 سے شروع کردہ 6 دنوں پر مشتمل جنگ میں 6 عرب ممالک کو تباہ و برباد اور شکست دیکر لاکھوں میل اراضی پر اپنا ناجائز قبضہ کیا آج ایران کے بدولت اسرائیل ان چھے محاذ پر محض چھے گھنٹے مسلسل لڑ کر بھی دکھائے تو امن کی بھیک مانگتے ہوئے سرنگوں ہو جائے گا اور ممکن ہے جنگ جاری رہی تو قابض اسرائیل سے فلسطین واپس حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

تحریر: مزمل حاتمی

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button