پاکستانی شیعہ خبریںہفتہ کی اہم خبریں

چاند دیکھنا کسی مفتی، مولوی یا مرجع کا کام نہیں، علامہ جواد نقوی

شیعہ نیوز: مجمع المدارس تعلیم الکتاب و الحکمہ و تحریک بیداری امت مصطفی کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے لاہور میں نمازِ عیدالفطر کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شریعتِ مقدسہ کی رُو سے ہِلالِ عید دیکھنا انفرادی و نجی فریضہ ہے اور روئیتِ ہلال سے متعلق علما طبقے کی اجارہ داری کی دینی حیثیت نہیں بلکہ شریعتِ مقدسہ نے روئیتِ ہلال کیلئے قاعدے بیان کئے ہیں جن میں سے کسی ایک کے پورا ہونے سے چاند ثابت ہو جاتا ہے۔ تمام مسالک میں چاند کی روئیت ان شرائط کے پورا ہونے پر ثابت ہو جاتی ہے کہ یا تو انسان خود چاند دیکھے گا یا دو عادل اشخاص گواہی دیں یا چاند دیکھنے کی شہرت ہو جائے یا پچھلے مہینے کے تیس دن مکمل ہو چکے ہوں یا پھر حاکم شرعی اعلان کرے گا کہ چاند نظر آ چکا ہے۔

علامہ سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ ہلاِل عید دیکھنے کیلئے بنائی گئی کمیٹیوں اور انجمنوں کی کوئی دینی حیثیت نہیں، اسے ایک سہولتی نظام کہا جا سکتا ہے لیکن افسوس کہ ان کمیٹیوں کی تشکیل بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر کی گئی ہے، تمام فرقوں کے علماء کو چاند کے بارے میں بٹھانا ازخود ایک فرقہ واریت کا موضوع چھیڑنے کے برابر ہے، چاند تو فرقوں کا نہیں اور نہ ہی روئیت ہلال کمیٹی شرعی لحاظ سے کوئی موضوعیت رکھتی ہے، اس سے الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور چاند دیکھنے جیسے سادہ سے کام کو قومی الجھن بنا دیا گیا ہے اور یہ معاملہ سیاست کیساتھ بھی الجھا دیا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چاند دیکھنا کسی مفتی، مولوی یا مرجع تقلید کا کام نہیں، بلکہ اس کام کی ذمہ داری شریعت مقدسہ نے ہر مسلمان کو سونپی ہے، جس کے معیارات اور اصول وضع کر دیئے گئے ہیں جو ہر مسلک میں یکساں ہیں، مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب اس عمل پر علماء کا طبقہ اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہر شخص اس پر بطور حجت اظہارِ نظر کرتا ہے جس کا مقصد اظہارِ وجود اور شخصیت کی نمائش ہوتا ہے۔ چونکہ اس موقع پر عوام متوجہ ہوتے ہیں اور ہر پیغام پر کان دھرتے ہیں اس لئے موقع پرست لوگ اس سے اپنی شخصیت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

علامہ سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ ہماری وزارت سائنس نے اس مسئلے کو الجھا کر مزید پیچیدہ کر دیا ہے کہ یہ سائنس کا مسئلہ ہے جبکہ ایسا نہیں۔ عید کیلئے چاند دیکھنا ہی بنیادی شرط ہے لیکن چاند کیسے دیکھا جائے اس کے لیے ہر زمانے میں اپنا طریقہ کار، اوزار یا وسائل دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ ایک علمی موضوع ہے اور جب بھی کوئی علمی موضوع چھڑتا ہے تو مذہبی طبقے اور علماء کو فوراً حساسیت ہو جاتی ہے اور انہیں علمی و سائنسی بات قبول کرنے میں ایک صدی لگتی ہے۔جیسے ابھی بھی بعض جو شریعت کے پابند لوگ ہیں ٹیکا نہیں لگواتے، پھکیوں سے اپنا علاج کرتے ہیں کہ یہ اسلامی طریقہ ہے اور وہ یونانی و غیر اسلامی طریقہ ہے۔ اس طرح قدامت پرست و روایت پرست لوگ بہت مشکل سے کسی وسیلے کو قبول کرتے ہیں جو انہیں علم نے دیا ہو۔

علامہ سید جواد نقوی کا روئیتِ ہلال سے متعلق ریاضی اور علومِ فلکیات کی افادیت بارے مزید کہنا تھا کہ آج ہمارے پاس چاند و سورج کی رصد سے متعلق جدید علوم دستیاب ہیں اور دنیا بھر میں باقاعدہ تعلیم دیئے جاتے ہیں۔ یہ ماہرینِ فلکیات سو فیصد درستی سے چاند و سورج گرہن کے اوقات بتا دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ علومِ فلکیات کی مدد سے آسانی سے تشخیص دیا جا سکتا ہے کہ چاند نظر آئے گا یا نہیں۔ انہوں نے یہ سب کچھ تشخیص دے کر آپ کا کام اتنا آسان کر دیا ہے پھر بھی ہم قدیمی طرز پر آنکھوں سے چاند دیکھنے اور گواہی اکٹھی کرنے پر مُصر ہیں۔

تحریکِ بیداری امتِ مصطفیٰ کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ سائنس اور شریعت میں کوئی جنگ یا تضاد نہیں، دین کی بنیاد ہی عقل اور علم پر رکھی گئی ہے اور دین ہر علمی بات کو قبول کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب مذہبی طبقہ اور خاص طور پر علما علمی بنیاد کیخلاف بات کرتے ہیں یا فتویٰ دیتے ہیں تو اس سے دینِ مقدسہ کا مذاق بنتا ہے اور مخالفینِ دین و مذہب اس کا خوب پرچار کرتے ہیں۔ تمام انبیا کرام اور آئمہ ہدیٰ علیہم السلام نے بھی اپنے دور کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا اور اسے ترقی دی۔

علامہ سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ فلکی قانون کے مطابق چاند کا باقاعدہ نقشہ نشر کیا جاتا ہے جس میں چاند کی پیدائش، حرکت، عمر اور افق ہائے طلوع و زوال سے متعلق دقیق حسابات ہوتے ہیں، جس سے چاند ثابت ہو جاتا ہے۔ اس کیساتھ ہی چاند اگر ایک ہی افق پر موجود خطوں میں نظر آ جائے تو باقی سب کیلیے بھی چاند ثابت ہو جاتا ہے یہ جو زمینی سرحدیں بنائی ہوئی ہیں، یہ چاند کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ علما اور مذہبی طبقے کو علمی اوزار کو شرعی اوزار کے طور پر قبول کرنے میں ابھی کچھ عرصہ لگے گا اور وہ دیگر سائنسی اصولوں اور اوزار کی طرح اس کو بھی تسلیم کر لیں گے لیکن اس کیلئے تجدیدِ فکر اور بیداری شعور کی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button