امریکہ کا افغانستان سے فوجی انخلا سے پیدا ہونے والے خطرے پر انتباہ
شیعہ نیوز: افغانستان میں برسوں کی فوجی موجودگی کے بعد جو قیام امن کی غرض سے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے بہانے سے جاری رہی ہے، پینٹاگون نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کی صورت میں دہشت گرد عناصر دو سال کے اندر مغرب کے خلاف حملوں کے لئے آمادہ ہو جائیں گے۔
پینٹاگون کے حکام نے اپنے تازہ ترین دعوؤں میں کہا ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کی صورت میں دہشت گرد عناصر دو سال کے اندر مغرب کے خلاف حملوں کے لئے آمادہ ہو جائیں گے اور القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے عناصر مغرب میں اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی تیاری کر لیں گے۔
امریکی وزیر جنگ لوئیڈ آسٹن اور جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف مارک میلی نے امریکہ کی فوجی مداخلت کی توجیہ کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ آئندہ تین ماہ کے اندر افغانستان سے فوجی انخلا کا عمل مکمل ہونے پر اس ملک میں خانہ جنگی اور افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جک سالیوان نے دعوی کیا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی سفارت خانوں پر طالبان گروہ کے حملوں کے خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس سے قبل امریکہ کے نائب وزیر دفاع رونالڈ مولٹری نے امریکی کانگریس سے اپنے خطاب میں دعوی کیا تھا کہ افغانستان میں طالبان گروہ کی پیش قدمی اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہ کے از سرنو منظم ہونے کی صورت میں امریکی فوجی، افغانستان میں دوبارہ واپس جانے کے لئے تیار ہیں۔
امریکی حکام کی جانب سے اس قسم کے بیانات افغانستان سے غیر مشروط انخلا پر مبنی ان کے دعوے کے بارے میں ماضی سے کہیں زیادہ شکوک و شبہات کو جنم دے رہے ہیں۔ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا تاخیر کے ساتھ تاہم ذلت آمیز انخلا، عمل میں آ رہا ہے وہ بھی ایسی صورت میں کہ اس ملک میں امریکہ کی بیس سال کی فوجی موجودگی کا نتیجہ افغانستان میں قتل عام و غارتگری، خون خرابے، دہشت گردی کے فروغ اور منشیات کی پیداوار میں ماضی سے کہیں زیادہ اضافے کے سوا اور کچھ نہیں نکلا ہے جس نے اس ملک کو مکمل طور پر تباہی و بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دو ہزار ایک میں افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف مہم اور اس ملک میں قیام امن نیز منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ روکنے کے بہانے بری طرح سے اسے جارحیت کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں اس ملک کی نہ صرف اقتصادی تنصیبات تباہ و برباد ہو گئیں بلکہ قتل و غارتگری اور دہشت گردی کا بازار بھی گرم ہوگیا۔ اس کے علاوہ منشیات کی پیداوار و اس کی اسمگلنگ میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گیا اور یہ ایسی صورت میں ہے کہ افغان حکام اور عوام ہمیشہ سے ہی اپنے ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا پرزور مطالبہ کرتے رہے۔