ظلم کی تاریخ بہت پرانی، ہر جگہ سے پسپائی امریکہ کے زوال کی علامت ہے، علامہ ریاض نجفی
شیعہ نیوز: وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے علی مسجد جامعتہ المنتظر ماڈل ٹاﺅن میں خطبہ جمعہ میں کہا ہے کہ انسان کی تخلیقق اور اسے عطا کی گئی نعمات میں اللہ کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ارشاد ہوا۔ سب سے بڑی نعمت عقل ہے جس کے سہارے انسان علم کے مدارج حاصل کرتا ہے اور ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔ طاقت و اقتدار بھی حاصل کر لیتا ہے۔ اگر اس کا غلط استعمال کرے تو زوال کیساتھ عذاب بھی آ سکتا ہے، کیونکہ اصل طاقت اللہ ہے، وہ جسے چاہے عزت و اقتدار دے، جس سے جب چاہے واپس لے اور ذلّت سے دوچار کرے۔ ایک وقت میں مسلمان علم کی بنا پر حکومت کرتے رہے پھر زوال کا شکار ہوئے۔ کچھ عرصہ سے امریکہ واحد طاقت سمجھی جاتی تھی لیکن ہر جگہ سے پسپائی ہو رہی ہے جو اس کے زوال کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام لوگ بھی مالی لحاظ سے عروج و زوال کا شکار ہوتے رہتے ہیں، نادار مالدار اور مالدار دیکھتے ہی دیکھتے نادار ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ دولت یا منصب ملنے کے بعد والدین کا عزت و احترام تک بھول جاتے ہیں، ایسے رویوں کے نتیجہ میں ان کی گرفت یقینی ہو جاتی ہے، ظلم کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اسلام کے آغاز میں کفار مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھاتے تھے، تشدد کرتے، چلچلاتی دھوپ میں لِٹاتے۔ اِن مظالم سے تنگ آ کر مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تب بھی اُن کا پیچھا کیا اور انہیں واپس لانے کی کوشش کی۔ حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ قرآن مجید کی ایک آیتِ مجیدہ کی تفسیر میں ایک گروہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ یہ حضرت ابو طالب ؑکے بارے نازل ہوئی۔ واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب وہ مریض تھے تو رسول اکرم نے انہیں اسلام لانے کا اصرار کیا جس پر آیت نازل ہوئی اِنّک لا تھدی من احببت۔ جس کو آپ دوست رکھتے ہوں لازم نہیں اسے ہدایت دیں۔ در حقیقت سیاسی مفادات پیش نظر رکھنے والوں نے اس تفسیر پر اصرار کیا کیونکہ حضرت ابو طالب، علی ؑ کے والد ہیں۔ اس ضمن میں تین احادیث بیان کی جاتی ہیں جن کے راوی حضرت عبداللہ ابن عباس، ابو ہریرہ اور ایک اور شخص ہے جو دروغ گو مشہور تھا۔
واضح رہے کہ عبداللہ ابن عباس حضرت ابو طالب کی وفات کے وقت ایک سال کے شِیر خوار بچے تھے۔ وہ کیسے اس واقعہ کے گواہ بن سکتے ہیں؟ ابو ہریرہ 7 ہجری کے بعد مسلمان ہوئے جبکہ حضرت ابو طالب ہجرت سے دو سال پہلے رحلت فرما چکے تھے۔ تیسرا راوی ویسے ہی جھوٹا تھا۔ مشہور مفسّر فخرالدین رازی نے تسلیم کیا کہ آیت سے تو نہیں لگتا کہ یہ جناب ابو طالب کے بارے ہے لیکن چونکہ اکثر علماء یہی کہتے ہیں اس لئے میرا بھی یہی خیال ہے۔ رازی کی رائے کو مصری اہلسنت عالم آلوسی نے کافی دلائل سے مسترد کیا۔ اس ضمن میں قرآن کی گواہی موجود ہے کہ تقلّبک فی الساجدین اے حبیب! آپ جن جن اصلاب و ارحام سے گزرے ہیں وہ سجدہ گزار تھے۔ اسی طرزِ عمل و فکر کی بنا پر بعض علماء کی رائے ہے کہ ایک فرقہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد کو کافر ثابت کرنا اپنا مذہبی حق سمجھتا ہے تو دوسرے فرقوں کو بھی بعض شخصیات پر اعتراض کا حق حاصل ہے، اسے بھی برداشت کیا جائے۔