مضامین

ٹیم ریلسٹس (Team Realists) معرکہ جنگِ نرم

تحریر: فرخ عباس – سید عظیم سبزواری
جنگ نرم (سافٹ وار) کیا ہے؟
گروہوں یا ممالک کے مابین جھگڑے کو جنگ کہتے ہیں۔ ایک جنگ میں ہتھیار اور افواج ملوث ہوتی ہیں۔ جنگ کا مقصد طاقت کے بل پر دوسروں کی ملکیت پر قبضہ کرنا اور ان پر غالب ہونا ہے۔ جنگ کی 2 اقسام ہیں: ایک وہ جنگ کہ جس میں ہم طاقت، ہتھیار، رقم اور پابندیوں کا استعمال کرکے غلبہ پاتے ہیں۔ اس کو ہم جنگِ سخت کہتے ہیں جبکہ جنگ کی دوسری قسم میں ہم لوگوں کے اذہان کو ثقافتی یلغار، سیاسی و معاشرتی اقدار کے ذریعے تبدیل کرکے ان پر غلبہ پاتے ہیں۔ اس کو ہم جنگِ نرم کہتے ہیں۔ جنگِ سخت کے اثرات اتنے زیادہ دور رس اور خطرناک نہیں ہیں جتنے جنگِ نرم کے۔

جنگِ نرم ایک ایسا معرکہ ہے کہ جس سے ہم انکار نہیں کرسکتے۔ جنگِ نرم میں لوگوں کو ذہنی غلام بنایا جاتا ہے۔ یہ وہ جنگ ہے کہ جس میں قتل و غارت کیے بغیر ملکوں کو یرغمال کیا جاتا ہے اور فتح اس طرح کیا جاتا ہے کہ لوگ بظاہر خود کو آزاد تسلیم کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ اصل میں غلام بن چکے ہوتے ہیں۔ یہ جنگ دراصل الفاظ ہی کی نہیں بلکہ نظریات اور اس پر مبنی بیانیہ کی جنگ ہے۔ جس کی بات مضبوط ہوگی، وہ اس میں فاتح ٹھہرے گا بشرطیکہ وہ اسے بروقت اور بصیرت سے پیش کرے اور استقامت سے ڈٹا رہے۔ اس لئے اس میں عقل کے ساتھ اعصاب کو مضبوط رکھنا پڑتا ہے، تب ہی یہ جنگ کی حالت اختیار کرتی ہے۔

جنگ نرم میں سوشل میڈیا کا کردار
جنگِ نرم میں سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا محاذ سوشل میڈیا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر لاگت بہت زیادہ ہے، لیکن اس کے مقابلہ میں سوشل میڈیا سستا بھی ہے اور آج کل یہ ہر ایک فرد کے پہنچ میں بھی ہے۔ جولائی 2020ء کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ فیس بک استعمال کی جاتی ہے۔ جس کے بعد بالترتیب یوٹیوب، واٹس ایپ، وی چیٹ، انسٹاگرام وغیرہ استعمال ہوتے ہیں۔ اس طرح سب سے زیادہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں میں وہ طبقہ سرفہرست ہے کہ جو اپنی قوم کے مستقبل کے معمار و محافظ ہیں، یعنی نوجوان طبقہ۔ اس لیے دشمن کا اصل ہدف نوجوان طبقہ ہوتا ہے اور وہ ایسے حربے اور پراپیگنڈہ استعمال کرتا ہے کہ جس سے وہ نوجوان طبقہ کے اذہان کو اپنے قابو میں کرتا ہے۔ جب معمار اور محافظ ہی دشمن کے ہم خیال ہوں تو پھر قوم محکوم اور مغلوب بن جاتی ہے اور غلامی اس کا مقدر بنتی ہے۔

سوشل میڈیا کا ذمہ دارانہ استعمال
سوشل میڈیا کے بارے میں رہبر معظم سید علی خامنہ ایؒ فرماتے ہیں کہ
"سوشل نیٹ ورکس میں صرف تفریح کی فکر میں نہ رہیں۔ آپ لوگ جنگِ نرم کے جرنیل ہیں اور جنگِ نرم کا میدان عمار یاسر جیسی بصیرت اور مالک اشتر جیسی استقامت کا طلب گار ہے۔ اپنے پورے وجود کے ساتھ اس میدان میں تیار رہیں۔” نہ صرف یہ بلکہ ایک اور مقام پر رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ایؒ نے یہ بھی کہا کہ اگر میں منصبِ رہبری پر نہ ہوتا تو میں ایک میڈیا ٹیم بناتا اور اس کی سربراہی کرتا میدان جنگ نرم میں۔ سوشل میڈیا کا دائرہ اتنا اہم ہے کہ مقاومت اسلامی لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے اس سال محرم ماہ عزاء میں سب کو تاکید کی کہ اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس کو منبر حسینی میں تبدیل کر دیں۔

امامیہ جوان در سوشل میڈیا
رہبر معظمؒ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے دشمن کے سوشل میڈیا پر کی گئی یلغار اور ثقافتی حملہ کو روکنے اور جوابی کارروائی کے لیے جذبہ ایمانی کی ڈھال سے لیس امامیہ نوجوانوں نے سوشل میڈیا کا محاذ سنبھالا اور ہر پلیٹ فارم پر دشمن کی چالوں کا جواب دینے کی ٹھانی۔ اس وقت سب سے زیادہ فیس بک اور مئوثر انداز میں ٹویٹر استعمال کیا جاتا تھا۔ امامیہ جوانوں نے سب سے زیادہ فوکس ٹویٹر پر دیا اور 2015ء میں سینیئرز کے ساتھ مشاورت کرکے ان کے زیر نگرانی چند امامیہ جوانوں پر مشتمل ایک ٹیم بنائی کہ جس کا مقصد ٹویٹر کو استعمال کرتے ہوئے جہالت، کرپشن اور شدت پسندی کے خلاف آواز اٹھانا اور مساوات، عدل اور امن و امان کو فروغ دینا تھا۔ یہ امامیہ جوان شہید ڈاکٹر محمد علی نقویؒ کے اس فرمان کی عکاسی کرتے ہیں کہ جس میں شہید فرماتے ہیں کہ "تم میں سے ہر ایک ایمانداری کے ساتھ اپنے کام کی فکر کرے تو ہر ایک میں اتنی صلاحیت ہے کہ معاشرے کو تبدیل کرسکتا ہے۔”

ٹیم ریلسٹس – آئی ایس او کا سوشل میڈیا فائٹر ونگ
اس وقت وطن عزیز میں کئی ٹوئیٹر ٹیم وجود رکھتی ہیں، جن کا تعلق مکتب اہلبیت سے ہے، مگر سب سے موثر اور وسیع اس وقت امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی ٹیم ریلسٹس ہے۔ بنیادی طور پر 2015ءسے اب تک کے اپنے وجود میں اس ٹیم نے امامیہ طلبہ و طالبات سمیت سابقین و ہم فکر افراد کو متحرک کرکے جن معاملات پر ٹوئیٹر پینل پر پاکستان کے کامیاب ترین ٹرینڈ ثبت کیے ہیں، ان میں:
شہادت آئمہؑ و اہلبیت اطہارؑ
جبری گمشدگان
رسول اللہ (ص) کیخلاف توہین آمیز خاکہ جات کا جواب
عزاداری پر رکاوٹوں کا جواب
طلبہ اور تعلیمی معاملات
محور مقاومت اور اسلامی شخصیات پر پابندیوں کا جواب
شہداع ملت تشیع اور مقامات مقدسہ کی یاد
پاکستان میں مغربی و ہندی ثقافتی یلغار کا جواب
یمن، کشمیر اور فلسطین پر مظالم پر احتجاج
شیعہ سنی اتحاد اور وحدت اسلامی
اس کے علاوہ شیعہ عقائد، تکفیری عناصر کو جواب دینا، میڈیا میں شیعہ تعلیمات پر بے جا تنقید کا جواب دینا اور باقی اہم موضوعات میں شامل ہیں۔ اس طرح جیسے اب تک عوام کسی معاملہ پر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرسکتی ہے اور اپنی آواز اٹھا سکتی ہےو ٹیم ریلسٹس نے یہ کام آن لائن کرنے کا اہتمام کیاو جس سے ہر وہ شخص جو کسی بھی وجہ سے جسمانی طور پر حاضر ہو کر آواز نہیں اٹھا سکتاو وہ اس برقی میدان کے ذریعے وارد ہو کر حکام بالا اور ذرائع ابلاغ تک اپنی آواز دیگر ہم فکر افراد کے ساتھ یکجا ہو کر پہنچا سکتا ہے۔

ٹیم ریلیسٹس دشمن کی نطروں میں
اب تک کے ہونیوالے ٹرینڈ میں اور ٹوئیٹر محاذ پر آئی ایس او کی ٹیم ریلسٹس دو طرح کے بڑے دشمنوں کی نظر میں کانٹا بنی ہے۔ ایک پاکستان میں موجود شیعہ کے خون کے پیاسے تکفیری گروہ، جو سوشل میڈیا پر رپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی آئی ڈیز بند کروانے کے چکر میں رہتے ہیں اور دوسرا صہیونی دشمن۔ اگست 2020ء میں امریکہ کی سٹینفارڈ یونیورسٹی میں عالمی تعلقات عامہ کے تحقیقاتی ادارے فری مین سپوگلی انسٹیٹیوں نے ٹیم ریلسٹس کے اسرائیل مخالف ٹرینڈ پر اپنا تجزیہ ایک تحقیقاتی رپورٹ میں پیش کیا، جو اسرائیل حکومت کو کھٹکا تھا۔
https://fsi.stanford.edu/news/covid1948-hashtag

اس ٹریند #Covid1948 میں صہیونی ریاست کو کورونا وائرس سے تشبیح دی گئی تھی کہ جو 1948ء میں وجود میں آیا۔ یہ ٹرینڈ دنیا بھر میں بے حد مقبول ہوا اور یہ مہر ثبت ہوئی کہ پاکستان میں صہیونی مخالف طاقت آئی ایس او کی شکل میں موجود ہے۔ اسی طرح دیگر مواقع جس پر دشمن کو ٹیم ریلیسٹ کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں فروری 2019ء میں سعودی ولی عہد اور یمن کے قصاب محمد بن سلمان کی پاکستان میں آمد، یمن پر سعودی جنگ، بحرین میں مظلوم قیدی، شام میں مقامات مقدسہ پر حملہ، کشمیر میں بھارت کے تسلط پر ہندو انتہا پسندوں کی ٹیم آئی ڈیز پر حملے اس بے لوث خدمت کے گواہ ہیں۔ ان شاء اللہ ٹیم ریلسٹس آئی ایس او پاکستان کے امامیہ میڈیا ہاوس کے ذریعے شیعہ جوانان کو متحد کرکے آگے چلنے اور ہر طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنے کی مشعل روشن رکھے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button