محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفیؒ کی قرآنی خدمات
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) مفسر قرآن کریم علامہ سید صفدر حسین نجفی کی ملت اسلامیہ پاکستان کیلئے غیر معمولی اور گراں قدر خدمات ہیں۔ یہاں ہم قارئین کیلئے آپؒ کی 33ویں برسی کے موقع پر آپؒ کی زندگی کی جہدِ مسلسل کی کتاب سے چند اوراق پیش کر رہے ہیں۔ جن میں قرآنی خدمات پر بھی روشنی ڈالی جائے گی، تاکہ ہم اپنے جذبوں کو جلا بخشیں اور ایک پرمقصد و متحرک زندگی گزار سکیں۔
محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی نے کئی شعبوں میں توجہ دے کر ان میں تحریک پیدا کی، جس میں ملک عزیز میں مدارس کی تشکیل کی تحریک سب سے اہم ہے اور اسی کے تسلسل میں ان مدارس کی وسعتوں کو ملکی حدود سے نکال کر عالمی کر دیا۔ بطور تذکر آپ نے یورپ، امریکہ، ایران اور باقی جگہوں پر بھی پاکستانی طلباء کیلئے قابل قدر اقدامات کیے۔ اس کیساتھ ساتھ انہوں نے بھرپور انداز میں قومی حقوق کی تحریک میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور دوسری جانب نوجوانوں کی تربیت کو انہوں نے اپنا ہم و غم بنایا، نیز دھرتی کو ایسے تربیت یافتہ و بہترین خصوصیات کے حامل جوان دیئے، جو آنیوالی نوجوان نسل کیلئے مشعل راہ بن گئے۔
علامہ سید صفدر حسین نجفی نے روایتی طور پر رائج روش یعنی سنے سنائے دین کو مسترد کیا اور لوگوں میں کتب بینی کو رواج دیا۔ جس کیلئے آپ نے بزرگوں اور مستند علماء کی کتابیں "عقائد، تاریخ، فقہ، سیرت آئمہ اہلبیت علیہم السلام ” غرضیکہ ہر شعبے کیلئے ہر ضروری کتاب کو متعارف کراویا اور ان تمام کتب کے خود تراجم کیے، تاکہ لوگوں میں خصوصاً جوان نسل میں کتب بینی کا شوق پیدا ہو، جس کے نتیجے میں سوچ و فکر میں پختگی ہو۔ ان تمام کامیاب کاوشوں میں ایک اہم کاوش اسلام کے سیاسی اور آفاقی چہرے کو پاکستان میں متعارف کروایا اور عالمی استعمار کی سازشوں کو بے نقاب کیا، نیز معاشرے میں موجود جمود کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جیسے کہ آپ نے امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ کی تحریک کا شانہ بشانہ ساتھ دیا اور امام خمینیؒ کے حقیقی اسلامی و سیاسی افکار و نظریات کو ملک بھر ترویج دیا۔
یہ خبر بھی پڑھیں سانحہ سیالکوٹ، فکری دہشتگردی کا غماز
مفسر قرآن کریم علامہ سید صفدر حسین نجفی کی زندگی کے جہدِ مسلسل میں سے سب سے نمایاں اور گراں قدر کام، آپ کی قرآنی خدمات ہیں۔ جب آپ نے محسوس کیا کہ بدلتے حالات کے پیش نظر عوام میں قرآن کریم کی رغبت کم ہو رہی ہے اور ملت اسلامیہ میں قرآنی مفاہیم و معارف کی شدت سے کمی پائی جاتی ہے تو اس کمی کو پورا کرنے کیلئے اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کے قلوب کو قرآن کریم کے نور سے منور کرنے کیلئے اپنے دوست مرحوم سیٹھ نوازش علی ساعتی کے تعاون سے ایک ایسے ادارے کی بنیاد ڈالی، جو چار عشروں کے گزارنے کے باوجود ملت اسلامیہ کیلئے نورِ قرآن کی آبیاری کر رہا ہے۔ شیخ امین ساعتی کے بقول پاکستان میں پہلے مکتب اہلبیت علیہم السلام کے قرآنی اشاعتی ادارے مصباح القرآن کی باقاعدہ طور پر 1981ء میں بنیاد رکھی گئی اور 1985ء میں اس کو ٹرسٹ کی حیثیت دی گئی۔
یاد رہے کہ جنہوں نے اس سلسلے کو اب تک سنبھالا ہوا ہے، ان میں شیخ محمد امین ساعتی صاحب بھی شامل ہیں، جن کی شب و روز کی بے پناہ خدمات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو توفیق دی ہے کہ محسن ملت کے لگائے ہوئے پودے کی آبیاری کرتے رہیں اور آپؒ کا ساتھ نہ چھوڑیں، چونکہ یہ معنویت و روحانیات کا ساتھ ہے، لہذا الحمدللہ اب تک امین صاحب نے اس کام کو جاری رکھا ہوا ہے۔ قرآن کریم کی طرف رجوع کی تحریک کا عزم اور اس کا آغاز آپ نے تفسیر نمونہ سے کیا، چونکہ یہ قرآنی آیات کی سادہ، عام فہم اور ایک جامع و مکمل تفسیر ہے، مگر اس کے انتخاب کے سلسلے میں آپ نے ایران میں چھپنے والی تفاسیر کا جائزہ لیا۔ انہیں آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کی لکھی جانے والی یہ تفسیر پسند آئی۔ اس وقت اس تفسیر کی دس جلدیں فارسی میں چھپ چکی تھیں۔ ثاقب اکبر صاحب راوی ہیں کہ وہ علامہ صاحب کیساتھ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کو ملنے قم گئے۔ دوران ملاقات دریافت کیا کہ اس کی کتنی جلدیں ہوں گی، تو انہوں نے فرمایا کے 27 جلدیں ہوں گی۔ آپ نے اس کا ترجمہ کرنے اور پاکستان میں شائع کرنے کی اجازت لی۔
علامہ سید صفدر حسین نقوی کو تفسیر قرآن کی اہمیت کا احساس تھا، اگرچہ آپ اس سے قبل کئی کتب کا ترجمہ کرچکے تھے۔ لہذا آپ نے اردو کی نزاکتوں کی وجہ سے مشہور ادیب اور شاعر سید مشکور حسین یاد مرحوم اور جناب ثاقب اکبر صاحب کی خدمات حاصل کیں۔ آپ نے تفسیر ہی نہیں بلکہ سب سے پہلی تفسیر موضوعی، منشور جاوید کا بھی ترجمہ شروع کیا اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ محسن ملت نے تفسیر موضوعی پر بھی خاص توجہ دی، یعنی قرآن کریم کی اول سے آخر تفسیر ہی نہیں بلکہ تفسیر موضوعی کی اردو زبان میں بنیاد ڈالی۔ آپ کی موجودگی میں ہی تاریخ قرآن کا ترجمہ چھپ گیا اور شہید استاد مرتضیٰ مطہری کے قرآنی کتب کے تراجم کے سلسلے شروع ہوئے۔ آپ کی موجودگی میں ہی علوم قرآن کی کتب کے تراجم شروع ہوئے۔ از مختصر یہ کہ وہ فقط تفسیر کی طرف متوجہ نہ تھے بلکہ علوم و معارف قرآن کی طرف بھی متوجہ تھے اور اس سلسلے میں آپ نے خاص اہتمام کیا اور یوں آپ کی ذات مبارک کی موجودگی میں ہی قرآن کریم کے دفاع میں کتابیں آنا شروع ہوئیں۔
الحمد للہ انہوں نے جو پودا لگایا، وہ تناور ہوا اور اگر آج ان کی دین اسلام کیلئے بے بہا خدمات کو شمار کیا جائے تو ادارہ التنزیل یا دیگر قرآنی ادارے کام کر رہے ہیں، یہ دراصل ان کے ہی لگائے ہوئے پودے ہیں، جو آج ایک شجر کی صورت اختیار کرچکے ہیں، ایسا شجر جس کی شاخیں معاشرے کے ہر حصے میں پھیل کر دین اسلام کے حقیقی چہرے کو عیاں کرنے اور قرآن دوستی و انس کو فروغ دینے کیلئے غیر معمولی اور جدید اقدامات سے ثمرآور ثابت ہو رہی ہیں۔ اگر ہم ان کے کار ہائے نمایاں کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ اپنے سے پہلے اور بعد آنیوالے لوگوں سے کئی گنا بلند مقام رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں بھی قرآن و اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ مربوط رکھے اور ان قرآنی خدمات کو بہترانداز میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس نقوی