القاعدہ اور طالبان سے زیادہ خطرناک لشکر طیبہ ہے – انٹرویو عارف جمال
عارف جمال کی کتاب “عالمی جہاد کی داعی:لشکر طیبہ 1985ء -2013ء جلد آنے والی ہے –وہ مصنف اور صحافی ہیں-جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر ہیں-وہ ہاورڑ یونیورسٹی و نیویارک یونیورسٹی میں انٹرنیشنل فیکلٹی رہ چکے ہیں اور ساؤتھ ایشیا ایکسپرٹ بھی-ورلڈ پریس انسٹیٹوٹ ،میکلسٹر کالج،منسیوٹا و یونیورسٹی-کالج آف لندن یو کے سمیت کئی ممتاز بین الاقوامی اداروں کے فیلو بھی رہ چکے ہیں- گذشتہ پندرہ سالوں میں عارف جمال نے 350 سے زیادہ تحقیقی مضمامین لکھے ہیں جن کا فوکس جنوبی ایشیا میں اسلامسٹ سیاست ،جہاد کشمیر،پاکستانی فوج،مدرسے اور افغانستان ہیں-عارف جمال بہت سی کتابوں کے شریک مصنف بھی ہیں-ان کی کتاب “شیڈو وار ۔۔۔۔۔۔۔کشمیر میں جہاد کی ان کہی کہانی”بہت مقبول ہوئی-بہت سال پہلے انہوں نے عمران خان کو طالبان خان کہا تو یہ نام فوری طور پر قبول ہوگیا-. س:آپ کی جانب سے پاکستان آرمی کے میجر جنرل کے دیوبندی طالبان کے ہاتھوں قتل پر ایک کوٹیشن سوشل میڈیا پر وائرس کی طرح پھیل گئی تھی-کیا ہم اس کو اس انٹرویو میں درج کرسکتے ہیں- ج:ہاں آپ اس کو درج کرسکتے ہیں اور اس کو انٹرو میں لگا سکتے ہیں-
س:کچھ حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان جیسی فکر رکھتے ہیں-جبکہ جنرل علوی جوکہ ایک شیعہ لبرل فوجی افسر تھے وہ پاکستان آرمی کے سابق کمانڈو الیاس کشمیری کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں-کیا آپ اس پر کوئی روشنی ڈالیں گے؟
ج:تقریبا تمام پاکستانی فوجی افسران یا تو نیشنلسٹ جہادی ہوتے ہیں یا وہ اسلامسٹ جہادی ہوتے ہیں-نیشنلسٹ جہادی وہ ہیں جو جہاد کو دفاعی پالیسی میں نیشنلسٹ مقاصد جیسے کشمیر کی آزادی اور افغانستان میں تزویراتی گہرائی کا حصول کے لیے استعمال میں لاتے ہیں-نیشنلسٹ جہادی اپنی روزمرہ زندگی میں بالکل سیکولر اور لبرل ہوتے ہیں-جنرل مشرف اور جنرل اشفاق کیانی نیشنلسٹ جہادیوں کی بہترین مثال ہیں-جنرل مشرف وہ پہلے جنرل تھے جنہوں نے پبلک میں جہاد کی حمائت کی تھی-اور کیانی نے فوج کے سربراہ کا عہدہ 2007ء میں سنبھالتے ہی جہاد کو بطور سٹیٹ پالیسی کے استعمال کرنے کرنے کا دوبارہ آغاز کردیا تھا-اسلامسٹ جہادی وہ ہیں جو دفاعی پالیسی میں جہاد کا استعمال اسلامی مقاصد کے لیے کرنے پر یقین رکھتے ہیں جیسے کشمیر،افغانستان اور اس سے آگے اور جگہوں پر اسلامی ریاستوں کا قیام-اس کی مثال لیفٹنٹ جنرل حمید گل،لیفٹنٹ جنرل جاوید ناصر ،جنرل محمود احمد وغیرہ وغیرہ ہیں-ہمیں ٹاپ کی فوجی قیادت میں اسلامسٹ جہادی بہت زیادہ نظر نہیں آتے-لیکن ملٹری افسروں کی بہت بڑی تعداد نے اس آئیڈیالوجی کو قبول کرلیا ہے-ان میں چند ہی ہوں جو اس سے متفق نہ ہوں-لیکن میرا نہیں خیال کہ شیعہ سپاہیوں اور فوجی افسروں کو اس پالیسی سے کوئی مسئلہ ہے-
س:یہاں تک نوبت کیسے پہنچی؟
جواب:یہ پاکستانی فوج کا 1947ء سے جہاد کو اپنی دفاعی اور خارجہ پالیسی میں ایک آلہ کے طور پر استعمال کرنے کے جنون میں مبتلا ہونے کا نتیجہ ہے-پہلے یہ انڈیا کے خلاف پھر سویت یونین کے خلاف افغانستان میں استعمال ہوا-لیکن ہم نے زیادہ سے زیادہ پاکستانی فوجیوں اور افسروں کو نیشنلسٹ جہادی سے اسلامسٹ جہادی بنتے دیکھا جب پاکستان کی فوج نے ہندوستان کی فوجوں کے سامنے 1971ء میں ہتھیار ڈال دئے-اس پروسس میں تیزی افغان جہاد کے دوران اور بعد آئی-جب سے 11/9 ہوا ہے تو بدقسمتی سے اس کی رفتار میں بےمثل اضافہ دیکھنے کو ملا –
س:آپ نے اپنی کتاب “شیڈو وار” میں بہت تفصیل سے یہ بات لکھی کہ کیسے پاکستان آرمی نے دیوبندی اور سلفی وہابی جہادیوں کو تربیت دی اور ان کو پراکسییز کے لیے کشمیر میں استعمال کیا گیا-برائے مہربانی آپ ہمیں تفصیل سے بتائیں اس بارے میں تاکہ ہمارے قاری آپ کی کتاب کی طرف جائیں-
ج:”شیڈو وار ایک مفصل کہانی ہے کہ کس طرح پاکستانی فوج نے اپنی ڈیفنس پالیسی میں کشمیر کے لیے جہاد کو ایک انسٹرومنٹ کے طور پر 1947ء سے کیسے استعمال کیا-میں نے اس میں یہ بھی دکھایا کہ جنرل ضیاء نے کیسے افغان جہاد میں محض کشمیر میں اس سے بڑے جہاد کی تیاری کے لیے کی تھی-اس وقت کے دوران فوج اور جہادی گروپس نے 5 لاکھ جہادیوں کو کشمیر اور افغانستان میں جہاد کرنے کی تربیت دی-فوج نے جن جہادیوں کی کشمیر کے لیے تربیت کی تھی وہ خود فوج کا شکار کرنے کو آگئے-11/9 سے پہلے الیاس کشمیری اور اس کے لڑکے کشمیر میں جہاد کررہے تھے-اس کے لڑکے ہندوستانی فوجیوں کے سر قلم کرتے اور ان کو پاکستان بھیج دیتے تھے-پاکستانی اخبارات ان کو شہ سرخیوں کے ساتھ شایع کرتے تھے-وہ پاکستان کا ھیرو تھا-آج وہ اور اس کے لڑکے پاکستانی فوجیوں کے سر قلم کررہے ہیں-یہ لشکر طیبہ تھی جس نے ہندوستانی فوجیوں کے سر قلم کرنے کی روائت ڈالی-1995ء میں لشکر طیبہ کے کمانڈر ہیبت خان ایک ہندوستانی فوجی کا سر قلم کرتا ہے اور پھر اس کو جماعۃ الدعوۃ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر اس کی نمائش کی گئی-1995ء دسمبر کی اشاعت میں اس بارے سٹوری مجلہ الدعوۃ نے شایع کی-الیاس کشمیری فوج کے کنٹرول سے نکل گیا-مگر لشکر طیبہ/جماعۃ الدعوۃ ابھی تک ان کے کنٹروۂ میں ہے-اس نے ایک دن ان کے کنٹرول سےاک دن باہر آنا ہے-ایسا جلد یا بدیر ہونا ہے-جسدن جماعۃ الدعوۃ ان کے کنٹرول سے باہر ہوئی اس دن پاکستان کا خاتمہ ہوجائے گا-یہ ہم سب جانتے ہیں-
تو یہ آپ کی اگلی آنے والی کتاب کا تھیم
ہے؟
ج:جی-میری آنے والی کتاب لشکر طیبہ کی مفصل تاریخ اور پروفائل پر مشتمل ہے-یہ ایک اکیڈمک مطالعہ ہے-جو یہ دکھاتاہے کہ کس قدر بڑا عفریت پیدا ہوچکا ہے-اور کس قدر خطرناک ہوگا جب یہ آئی ایس آئی کے کنٹرول سے نکلے گا-دیوبندی جہادی گروہوں کے برعکس لشکر طیبہ ایک حقیقی عالمی تنظیم ہے-اپنے جہادی انفرا سٹرکچر کی وسعت کے اعتبار سے اور اس کے اراکین چاپان سے امریکہ تک پھیلے ہوئے ہیں-یہ کتاب عالمی تناظر میں لشکر طیبہ کے عزائم اور بڑھتی صلاحیتوں کا احاطہکرتی ہے
س:کیا یہ کتاب تنازعات کھڑا کرے گی؟
میں نے زیادہ تر بنیادی ابتدائی حوالے استعمال کئے ہیں-مثال کے طور پر جماعۃ دعوۃ الیکشن ،جمہوریت کو کفر خیال کرتی ہے-حافظ سعید پاکستان کے آئین پر یقین نہیں کرتا-اس کے خیال میں پاکستان کا آئين باطل ہے-جوکہ بہت سخت ہے-میں نے ان کی تقریروں کو مجلہ الدعوۃ اور ان کی دوسری پلیکشنز سے لیا ہے-وہ اس سے انکار نہيں کرسکتے-یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں کوئی جماعۃ الدعوۃ کے ڈسکورس پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ اس کی سرپرستی فوج کررہی ہے-لشکر طیبہ کا ڈسکورس اور بیانیہ القائدہ اور کسی بھی دیوبندی جہادی گروپ سے زیادہ خطرناک ہے-اور یہ بہت آزادی کے ساتھ یہ جماعۃ الدعوۃ والوں کے دفاتر سے مل جاتی ہیں-
س:آپ نے حال ہی میں بی بی سی کو بتایا کہ لشکر طیبہ کے اراکین کی تعداد 5 لاکھ ہے-کیا یہ مبالغہ آرائی نہ ہے؟
ج:نہیں ،ہوسکتا ہے کہ یہ کم ہو-حافظ سعید نے ایک انٹرویو میں بتلایا کہ 200 سے زائد جماعۃ الدعوۃ کے سکولوں میں 49000 ہزار طلباء رجسٹر ہوئے ہیں-۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے پرائمری سورسز کا استعمال کیا ان کی تعداد کا احاطہ کرنے کے لئے-حقیقت یہ ہے کہ کچھ سال قبل جماعۃ الدعوۃ کے ترجمان رسالے نے 20 لاکھ اراکین کا دعوی کیا تھا-میں نے دستاویزی ثبوت پیش کئے ہیں-میرا اندازہ ان کے دعوؤں کا ایک چوتھائی ہے-
س :اسٹبلشمنٹ نواز اکثر صحافی اکثر یہ لائن لیتے ہیں کہ فوج طالبان کے خلاف لائن لینا چاہتی ہے مگر اس کو سیاست دان حمائت نہیں دے رہے-اے این پی،پی پی پی اور پی ٹی آئی پر الزام لگایا جاتا ہے-اس ایشو پر مسلم لیگ نواز معصوم سمجھا جاتا ہے-کیا آرمی واقعی منتخب سیاست دانوں کی پیروی کررہی ہے؟
ج:بدقسمتی سے اکثر سیاست دانوں نے اسلامسٹ ریڈکل کے خلاف فوج کے سامنے سرنڈر کرڈالا ہے-آغاز میں پی پی پی نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی –لیکن حکومت میں آنے کے چند ماہ بعد ہی یہ اس سے دست بردار ہوگئی-بہت سے پی پی پی کے لیڈر طالبان کے لیے عذر خواہی تلاش کرنے لگے-بدقسمتی سے اے این پی نے بھی اسی راستے کی پیروی کی-ایم کیو ایم واحد پارٹی تھی جس نے 2008ء سے 2013ء تک اسلامسٹ ریڈکل عناصر کی مخالفت کی-نواز شریف کی حکومت بنا لڑے ہی فوج اور اسلامی شدت پسندوں کے آگے سرنگوں ہوگئی-یہ وہی کررہی ہے جو فوج ان کو بتارہی ہے-عمران خان طالبان اور طالبانائزیشن کے لیے جگہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں-وہ غلط خیال رکھتے ہیں وہ اس کے بدلے میں ان کو ملک پر حکمرانی کرنے کی اجازت دیں گے-میرے خیال میں پاکستان سوسائٹی مزید ریڈکل ہوچکی ہے-انہوں اس کو ووٹ دئے جو اسلام پسندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں-پاکستانی فوج پی پی پی اور این پی ایم کیو ایم کو بہتر خیال نہیں کرتی-وہ کم مزاحمت کرنے والوں کو پسند کرتی ہے-یہ بہت واضح ہے پاکستانی فوج ان جہادیوں سے لڑنے کو تیار ہے جنہیں اس نے تربیت دی اور وہ اب اس کے کنٹرول سے آذاد ہوگئے ہیں-لیکن وہ سیاست دانوں کو (اس کاروائی) کا الزام لینے کے خواہاں ہے-شریف اور عمران خان ایسا ہی کررہے ہیں-
س:پاکستانی میڈیا اور انٹیلیجنٹیسیا اکثر طالبان کو مختلف گروپوں کا مجموعہ بناکر پیش کرتا ہے-2011ء میں جناح انسٹی ٹیوٹ نے ایک رپورٹ فارن پالیسی ایلیٹ رپورٹ پیش کی-جس میں اکثر انٹرویوز دینے والوں نے کہا یہ ملاّ عمر کی شوری کوئٹہ اور حقانی نیٹ ورک کو پوسٹ نیٹو 2014ء کے افغانستان میں اکاموڈیٹ کرنا چاہئے-کیا ہم اسی رپورٹ کے مطابق کام کو ہوتا دیکھ رہے ہیں؟
ج:یہ وہ تھا جس کی پاکستانی فوج نے خواہش کی تھی-رپورٹ نے ان کے خیالات کو لیا جو ملٹری کے خیالات کی ترجمانی کررہے تھے-مجھے یقین تو نہیں ہے کہ بالکل ایسا ہی ہوگا-66 سالوں میں جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان بیک فائر کرگئے ہیں-پاکستان ہمسایہ ملکوں میں جہاد کرانے کی قیمت چکارہا ہے-ہم نے کئی بار جہادیوں کو کنٹرول سے باہر جاتے دیکھا ہے-اس کے علاوہ پاکستان کی تباہی کے ساتھ فوج اس پالیسی کی پیروی کرکے خود کو بھی تباہ کررہی ہے-اس کا تازہ ثبوت میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کی شہادت سے ملا ہے-پاکستانی جنرل اور سپاہی ان جہادیوں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہیں گے جن کو انہوں نے تیار کیا تھا-اور میرے خیال میں آنے والے سالوں میں جہادی زیادہ فوجی افسروں اور سپاہیوں کو قتل کریں گے-میری خواہش ہے کہ میں غلط ثابت ہوجاؤں-لیکن اس کے خلاف ہورہا ہے-
–