مضامین

سانحہ آرمی پبلک اسکول آج بھی تازہ کیوں؟

تحریر: ریحان سیّد

16 دسمبر 2014ء پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، جب جہاد کے نام پر چند اسلام اور پاکستان دشمن دہشت گردوں نے پشاور میں واقع آرمی پبلک اسکول کے کمسن بچوں کو بے دردی سے گولیوں کا نشانہ بنایا اور تکبیر کی صدائیں بلند کرتے رہے، اس سانحے کے روز اسکول کے اطراف بہت سی عجیب حرکات و سکنات دیکھی گئی، لیکن انہیں بیان کرنا پاکستانیوں کیلئے ناممکن ہے۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول کو 7 برس گزر گئے، لیکن حکومت، سکیورٹی ادارے اور عدلیہ شہید بچوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہے، آج بھی متاثرین آرمی پبلک اسکول پشاور اپنے بچوں کی تصاویر اٹھائے انصاف کی امید لگائے بیٹھے ہیں، لیکن معزز عدلیہ کو نسلا ٹاور جیسے ثانوی مسائل پر از خود نوٹس لینا تو یاد رہا، مگر ڈیڑھ سو کے قریب بچوں کے قاتلوں کو سزائیں دینا بھول گئی۔

ایک طرف تو حکومتی اداروں نے شہدائے اے پی ایس کے قتل میں ملوث تحریک طالبان کے رہنماء احسان اللہ احسان کو فرار کروایا تو دوسری طرف کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کرکے لواحقین شہداء اور پوری قوم کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ حکومت اور ادارے مت بھولیں کہ اسی ٹی ٹی پی نے پاک فوج کے جوانوں کو بے دردی سے قتل کیا اور ان شہید جوانوں کے کٹے ہوئے سروں سے فٹبال کھیل کر ریاست کی رٹ کو قدموں تلے روند کر نمبر ون آرمی کو کھلا چیلنج دیا، پوری پوری بستیاں دھماکوں سے اڑائی اور شہریوں کو گولیوں سے چھلنی کیا۔ تحریک طالبان پاکستان اور اس کی اتحادی اور ذیلی تنظیموں کے سنگین جرائم کی ایک طویل فہرست ہے، جس پر کسی بھی ریاست کے قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا بنتی ہے، لیکن نام نہاد ریاست مدینہ نے انہیں عام معافی کا ہرا سگنل دیا، یقیناً اس کے پیچھے خفیہ ہاتھ کا عمل دخل ضرور ہوگا، لیکن بظاہر ماضی میں طالبان خان کہے جانے والے عمران خان اور ان کے وزراء کا ہاتھ نظر آتا ہے۔

پاکستان کے شہری نام نہاد والی مدینہ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ریاست مدینہ میں بے گناہ انسانوں کا قتل عام کرنے والوں کو عام معافی کی دی جاتی ہے۔؟ کیا ریاست مدینہ میں تکبیر کی صداؤں میں معصوم بچوں کو تہہ تیغ کرنے والوں کو راہ فرار دی جاتی ہے۔؟ کیا ریاست مدینہ میں اسلامی ریاست کی سلامتی اور امن و استحکام کو سبوتاژ کرنے والوں کیساتھ بیٹھ کر بات چیت کی جانی چاہیئے۔؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں، جو پاکستان کے عام شہری کر رہے ہیں اور کچھ صحافتی حلقوں سے بھی ایسی آوازیں بلند ہوئی تھیں، لیکن اکثر نشریاتی و خبر رساں ادارے، میڈیا اور خفیہ عناصر کے پٹھو بنے بیٹھے ہیں، جو مقتدر قوتوں کے سیاہ کو سفید بتانے اور عوام کو اندھیرے رکھنے کے پابند ہیں۔ اس طرح کالعدم تنظیموں کو آزادی اور عام معافیاں دی جا رہی ہیں، اس کے بعد سانحہ سیالکوٹ کا رونماء ہونا کوئی بڑا سانحہ نہیں (غیر ملکی شہری کا قتل اور لاش کی بے حرمتی کرنا انتہائی افسوسناک واقعہ ہے، سابقہ جملہ تنقیدی ہے) جس پر اتنا واویلا کیا جائے۔

جب اقتدار قابو میں رکھنے والے ڈیڑھ سو کے قریب بچوں کے بہیمانہ قتل پر خاموش ہیں، تو پریانتھا کمارا کی موت پر شور کیوں ہوگا۔؟ وفاقی حکومت کے احمقانہ اقدامات سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے عمران خان نے اقتدار دہشتگرد تنظیموں کو معافی دینے کے لیے حاصل کیا ہے۔ حکومت اور ادارے ہوش کے ناخن لیں، ایک طرف کو ملک دشمن دہشت گردوں کو عام معافیاں دی جا رہی ہیں تو دوسری طرف محب وطن شہریوں کو کئی کئی برس سے جبری طور پر لاپتہ کیا ہوا ہے۔ کیا مقتدر قوتیں سقوط ڈھاکہ بھول گئیں؟ انہیں سنہ 1971ء کی غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہیئے، کیونکہ ایسی ہی غلطیاں ماضی میں بھی ہوئیں، جس کا انجام بہت بھیانک ثابت ہوا، اگر مقتدر قوتوں نے اپنی ظلم کی پالیسی نہ کی تو کہیں عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہو جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button