مضامین

کیا خطے میں امریکہ کی جگہ برطانیہ لے رہا ہے؟

تحریر: ہادی محمدی

امریکہ ایک عرصے سے مغربی ایشیا خطے میں شدید مشکلات اور چیلنجز کا شکار ہے۔ بہت سال پہلے ہی امریکہ اس خطے پر اپنا اثرورسوخ اور کنٹرول قائم کرنے میں ناکامی کا شکار ہو کر ناامید ہو چکا تھا اور اگر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کا اصرار اور دباو نہ ہوتا تو وہ کئی سال پہلے ہی یہ خطہ چھوڑ کر جا چکا ہوتا۔ دوسری طرف صہیونی رژیم کے پاس خطے میں بدمعاشی کرنے کیلئے امریکہ کے علاوہ کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔ وہ برطانیہ سے مغربی ایشیا خطے میں فوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنی ہر ممکنہ حمایت کرنے کی امید نہیں رکھتے اور اس سے یہ توقع بھی نہیں رکھتے کہ امریکہ کی طرح خطے میں اس کی فوجی مہم جوئی کی حمایت کرے گا لہذا صہیونی حکمران ہر گز برطانیہ کی فوجی طاقت پر بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نرم جنگ کے میدان میں اور انٹیلی جنس اور سکیورٹی امور میں صہیونی حکام خود کو برطانیہ کا شاگرد اور تربیت یافتہ تصور کرتے ہیں۔ اس وقت بھی اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم برطانیہ کی بھرپور حمایت اور آشیرباد کے ساتھ نفسیاتی جنگ، سائبر وار، انٹیلی جنس اور سکیورٹی شعبوں میں وسیع پراجیکٹس چلانے میں مصروف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صہیونی حکمرانوں کیلئے مغربی ایشیا خطے میں برطانوی اثرورسوخ ایک گران بہا خزانے سے کم اہمیت نہیں رکھتا اور یہی عظیم سرمایہ عرب ممالک میں صہیونی رژیم کی ناکامیوں اور اثرورسوخ نہ ہونے کے باعث کمزوریوں کا ازالہ کرتا آیا ہے۔ موجودہ حالات میں صہیونی رژیم کیلئے پہلی ترجیح مغربی ایشیا خطے میں امریکہ کی فوجی طاقت برقرار رکھنا ہے کیونکہ اس کی غیر موجودگی میں وہ شدید زوال کا احساس کر رہے ہیں۔

البتہ برطانوی سامراج نے بھی دور سے ہی سہی، فوجی طاقت کے میدان میں بھی صہیونی حکمرانوں کی کم مدد نہیں کی۔ امریکہ نے درپیش حالات کے تناظر میں چین اور روس سے مقابلے کو اپنی پہلی ترجیح قرار دے رکھا ہے اور جیواسٹریٹجک میدان میں ان کے خلاف نبرد آزما ہے۔ امریکی حکام محسوس کرتے ہیں کہ وہ عالمی سطح پر جاری امور میں اس وقت چین اور روس سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور انہیں اس کا ازالہ کرنے کیلئے نئے سرے سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ دو سال پہلے امریکہ نے "ابراہیمی صلح” نامی ڈرامہ رچایا اور خطے کی چند چھوٹی عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کے دوستانہ تعلقات استوار کروا دیے۔ لیکن یہ عرب ریاستیں صہیونی رژیم کی قومی سلامتی کو درپیش خطرات دور کرنے میں موثر ثابت نہیں ہو سکے۔

اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے والی چند خلیجی ریاستیں اس وقت شدید صدمے کا شکار ہوئیں جب انہیں صہیونی حکمرانوں کی جانب سے لوٹ مار پر مبنی رجحانات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ خلیجی ریاستیں اسرائیل سے بھی زیادہ امریکہ سے عاری مغربی ایشیا اور مشرق وسطی خطے سے خوف و ہراس میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ امریکی حکمران ان تمام مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ عرب ممالک کی لوٹ مار مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں رکھنے کے رجحانات کے باوجود مغربی ایشیا خطے میں خودمختار ممالک اور اسلامی مزاحمتی بلاک سے مقابلہ کرنی کی غرض سے کچھ حد تک اس خطے کا کنٹرول برطانوی حکمرانوں کے سپرد کرنے پر تیار ہو چکے ہیں۔

برطانیہ ایسا ملک ہے جس کی خارجہ سیاست زیادہ تر نرم جنگ پر استوار ہے۔ امریکی حکمران اپنے اس فیصلے کی روشنی میں عراق، یمن، ایران اور شام اور حتی جزیرۃ العرب کے امور برطانیہ کو سونپ دینا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے مطالبات کو بھی مدنظر رکھنا چاہتے ہیں لہذا اس مقصد کیلئے خطے میں اپنے کچھ فوجی اڈے برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ مستقبل میں خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں تبدیل ہونے کی آس لگائے بیٹھا ہے۔ برطانوی حکمران 1970ء کے عشرے کے بعد پہلی بار خطے میں اپنی موجودگی بڑھانے کا تجربہ کرنے والے ہیں۔ اگرچہ مغربی ایشیا اور جزیرۃ العرب میں ان کے کچھ فوجی اڈے بھی پائے جاتے ہیں لیکن برطانیہ نے اپنا زیادہ زور نرم جنگ، میڈیا وار، انٹیلی جنس وار اور سکیورٹی امور پر مرکوز کر رکھا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں مستقبل قریب میں خطے کی سطح پر دہشت گردانہ اقدامات، تخریب کاری اور بغاوتوں میں بڑھاوے کا منتظر رہنا چاہئے۔ اسی طرح دیگر پراسرار اقدامات جو برطانیہ کی خاص مہارتوں میں شامل ہیں۔ خطے کے مختلف ممالک میں وسیع تعداد میں برطانیہ کے تربیت یافتہ ایجنٹس اور جاسوس سرگرم عمل ہو چکے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی سرگرمیوں کے نتائج ظاہر ہوتے رہے ہیں گے۔ برطانیہ کی تاریخ خطے کی قوموں کے خلاف مجرمانہ اقدامات، لوٹ مار اور استعماری رویوں سے بھری پڑی ہے۔ اب جبکہ یہ مکار لومڑی ایک بار پھر خطے میں شیطانی سرگرمیاں شروع کرنے کا ارادہ کر چکی ہے تو خطے کی اقوام کے پاس اس سے انتقام لینے کا بہت اچھا موقع میسر ہو چکا ہے۔ مزید برآں، امریکہ کی جگہ برطانیہ کا یہ کرایہ دار والا کردار، امریکہ کے مجرمانہ اقدمات کی قباحت کو بھی کم نہیں کر پائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button