پروفیسر سبط جعفر کے قاتل پولیس اہلکار کا مزید 9قتل کی وارداتوں کا اعتراف
معروف مرثیہ خواں ،شاعر اہلبیت اورممتاز ماہر تعلیم پروفیسرسید سبط جعفر زیدی کے قتل میں گرفتار ہونے والے پولیس اہلکار طارق شفیع انصاری عرف ڈاکٹر نے جے آئی ٹی کے دوران 9 مزید افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے ملزم پہلے بھی جیل جا چکا ہے اور طویل عرصہ جیل میں گزارنے کے باوجود پولیس میں دوبارہ اپنی نوکری پر بحال ہو گیا اور واردات سے قبل بھی وہ پولیس کے محکمہ میکینکل ڈپارٹمنٹ سے تنخواہ وصول کر رہا تھا اس سلسلے میں ”جنگ“ کو ملنے والی تفصیلات کے مطابق ملزم نے جے آئی ٹی کے دوران بتایا ہے کہ لیاقت آباد سائنس کالج کے پرنسپل سید سبط جعفر کو قتل کرنے کیلئے اطہر، شاہد اور ملزم نے آپس میں مشورہ کیا تھا۔18/ مارچ 2013ء کو ملزم طارق شفیع کی اجازت سے اطہر اور شاہد نے سید سبط جعفر کو لیاقت آباد میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا جس کا مقدمہ نمبر 61/2013 لیاقت آباد تھانے میں درج ہوا، ان کے علاوہ ملزم نے قتل کی جن وارداتوں کا اعتراف کیا ہے ان میں زاہد ولد مشتاق جو کہ صدر میں حکمت کرنے والے ایک حکیم کا بیٹا تھا اسے 5/ فروری 2013ء کو اطہر اور شاہد چورن کے ساتھ مل کر قتل کیا تھا جس کا مقدمہ نمبر 40/2013 صدر تھانہ میں درج ہے، ملزم نے پیتل والی گلی میں سید قمر رضا نقوی کو قتل کیا تھا اور اس قتل میں اس کے ساتھ سبحان اور اس کا ایک ساتھی شامل تھا جس کا مقدمہ نمبر 55/2013 رضویہ سوسائٹی تھانے میں درج ہے، ملزمان نے سپاہ محمد کے ایک مبینہ قاتل کارکن اعجاز حسین جعفری جس نے متعدد افرادکو قتل کیا تھا کے قتل کا منصوبہ بنایا اور اسے سبحان کے ساتھ مل کر ہمدرد دواخانہ ناظم آباد میں قتل کر دیا تھا جس کا مقدمہ نمبر 55/2013 ناظم آباد تھانے میں درج ہے، ملزم کا کہنا ہے کہ سبحان نے اطلاع دی تھی کہ ایک لڑکا حسن صفدر نقوی انٹرنیٹ پر صحابہ کرام کیخلاف گستاخی کرتا ہے جس پر اسے پاپوش نگر میں قتل کر دیا گیا جس کا مقدمہ نمبر 32/2013 پاپوش نگر تھانے میں درج ہے۔ حافظ قاسم رشید نے انہیں بتایا تھا کہ دو لڑکے نفرت انگیز لٹریچر چھاپ کر تقسیم کرتے ہیں جس پر میں نے اور حافظ قاسم رشید نے کریم آباد پل پر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سید احسن عباس نقوی اور ضیاء مہدی کو گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا جس کا مقدمہ نمبر 150/2012 گلبرگ تھانے میں درج ہے۔ ملزم نے کہا کہ 16/ مارچ 2012 کو مغرب کا وقت تھا میرے ساتھ سبحان بھائی تھے اور میں موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور سبحان بھائی کے پاس نائن ایم ایم پستول تھا ہم علی بستی کی امام بارگاہ کے ذاکر کو قتل کرنے جا رہے تھے جب ذاکر کی کار بزنس ریکارڈر روڈ پہنچی تو سبحان نے پستول سے فائرنگ کی ذاکر فائرنگ سے بچنے کیلئے جھک گیا تو ساتھ بیٹھے اس کے بیٹے کو گولیاں لگیں اور ذاکر زخمی ہو گیا بعد میں معلوم ہوا کہ ذاکر کا بیٹا سید اکمل محسن رضوی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا اس کا مقدمہ نمبر 131/2012 جمشید کوارٹر تھانے میں درج ہے، ڈاکٹر حسن عالم زیدی سے ملزم طارق شفیع انصاری علاج کروا رہا تھا کہ اس دوران کسی مسلکی مسئلے پر دونوں میں تکرار ہو گئی جس پر ملزم نے ڈاکٹر کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی ہدایت پر شہزاد نامی لڑکے نے جو کہ نیو کراچی کا رہنے والا ہے 22/ جنوری 2013 کو ڈاکٹر حسن عالم کو ان کے کلینک میں قتل کر دیا جس کا مقدمہ نمبر 20/2013 نیو کراچی تھانے میں درج ہے۔ ملزم نے جے آئی ٹی کے دوران اپنے حالات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پی آئی بی کے علاقے میں 1968 میں پیدا ہوا، ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول سندھی ہوٹل لیاقت آباد سے حاصل کی اور اسی دوران ریفریجریشن کورس کیا اور میٹرک 1989 میں پرائیویٹ پاس کیا اور 1990 میں محکمہ پولیس میں بحیثیت مکینک گارڈن میں بھرتی ہوا 1995میں بھائی کے انتقال پر نوکری چھوڑ کر بہاولپور شفٹ ہو گیا اور وہیں ماموں کی بیٹی سے شادی ہوئی، ملزم پنجاب میں کپڑے کا کاروبار کرتا تھا کاروبار نہ چلنے کی وجہ سے 1998 میں واپس کراچی آگیا اور پولیس میں اپنی نوکری پر دوبارہ بحال ہو گیا ، پولیس میں تعیناتی کے دوران ملزم کا کہنا ہے کہ اس کی ملاقات وسیم بارودی نامی لڑکے سے ہوئی جو اس کے ایک شاگرد پیش امام اورنگی ٹاؤن نمبر ساڑھے گیارہ کے پاس آتا تھا۔ ملزم کے بہکاوے پر وہ قتل و غارت گری پر آمادہ ہوا اور اس طرح ایک دن وسیم بارودی اسے ایک لڑکے کو قتل کرنے کیلئے ساتھ لے گیا اس کا کہنا ہے کہ میرے پاس 30 بور کا پستول تھا اور ہم دونوں پیدل جا رہے تھے وسیم بارودی نے ایک لڑکے کی نشاندہی کی اور میں نے اس پر گولی چلا دی، 2000ء سے 2001ء میں میری گرفتاری سے قبل 9,10 افراد کو قتل کیا بعد ازاں اورنگی توسیع تھانے میں گرفتار ہو گیا، 2001ء کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ملزم نے بتایا کہ وہ اور وسیم بارودی پیدل جا رہے تھے کہ اسٹریٹ کرائم کرنے والے لڑکوں نے انہیں گھیر لیا اور وسیم بارودی سے رقم چھیننے کی کوشش کی مزاحمت پر وسیم کو گولیاں لگیں اور اسی دوران میں نے پستول نکال کر فائرنگ کی جس سے ایک ڈاکو ہلاک ہو گیا وسیم کو زخمی حالت میں اسپتال لے جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسی دوران اورنگی توسیع پولیس کے اے ایس آئی علی رضا نے ہمیں گرفتار کر لیا ۔گیارہ مقدمات میں گرفتاری ہوئی اور جیل میں ساڑھے 7 سال قید رہا ضمانت ہونے پر 2008-09 میں جیل سے رہا ہوا وسیم بارودی مجھ سے سات آٹھ ماہ قبل رہا ہو چکا تھا میں جیل میں ایس ایس پی کا امیر تھا لیکن جیل سے آنے کے بعد میں تمام سرگرمیوں سے دور ہو گیااور پولیس
میں اپنی نوکری پر ایک بار پھر بحال ہو گیا مگر پھر حافظ قاسم رشید کے اصرار پر میں نے دوبارہ ملاقاتیں شروع کیں اور اس طرح آہستہ آہستہ میں ایک بار پھر تنظیم کے ٹارگٹ کلرز کے گروپ کا سربراہ بن گیا۔ ملزم کے عرف ڈاکٹر، بابا جی، بڑے میاں، چاچا، حاجی اور حاجی صاحب تھے۔ ملزم نے اپنے ساتھیوں میں حافظ قاسم رشید اور وسیم بارودی کے علاوہ سبحان بھائی کی بھی نشاندہی کی ہے اور تینوں جیل میں ہیں۔