داعشی دلہن امریکہ جانے کے لئے بے تاب
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) امریکہ کی سپریم کورٹ نے دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے والی اپنی 27 سالہ شہری کے ملک میں دوبارہ داخل ہونے کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔
ہدیٰ امریکہ کی ریاست ایلاباما میں پیدا ہوئی تھیں اور وہیں پلی بڑھیں۔
انھوں نے نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ میں شمولیت کے بعد امریکہ سے شام کی جانب سنہ 2014 میں سفر کیا تھا۔
جب وہ ملک سے باہر تھیں تو امرکی حکام نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ 27 سالہ ہدیٰ اب امریکہ کی شہری نہیں رہیں جس کے بعد حکام نے ان کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا تھا۔
سنہ 2019 میں ہدیٰ کے والد نے امریکہ کی وفاقی عدالت کے فیصلے کے خلاف ایک اپیل دائر کی تھی جس نے اُن کی بیٹی کو امریکہ میں داخل ہونے سے روکا گیا تھا۔
بدھ کو ملک کی سپریم کورٹ نے بلا کسی تبصرے کے اُن کی تازہ اپیل کو مسترد کر دیا ہے۔
ہدیٰ ایک یمنی سفارتکار کی بیٹی ہیں جو امریکہ میں پیدا ہوئیں مگر وفاقی قانون ک تحت امریکہ میں پیدا ہونے والے سفارتکاروں کے بچوں کو شہریت کا حق خود بخود نہیں مل جاتا۔
اپنے کیس میں ہدی کے والد علی احمد متھانہ نے یہ دلیل دی تھی کہ اُن کے خاندان نے بیٹی کی پیدائش سے پہلے ڈپلومیٹک سٹیٹس کو چھوڑ دیا تھا یعنی وہ سفارتکار کی حیثیت میں نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہدیٰ کو امریکی محکمہ خارجہ نے اپنا شہری تسلیم کیا تھا اور انھیں سنہ 2004 میں پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا۔
ہدیٰ کا موازنہ برطانیہ کی شمیم بیگم سے کیا جا رہا ہے، جن سے دولت اسلامیہ میں شمولیت کے بعد شہریت ختم کر دی گئی تھی۔
سنہ 2019 میں ’سی این این‘ کو دیے گئے ایک بیان میں ہدیٰ نے بتایا تھا کہ جب انھوں نے امریکہ سے شام کا سفر کیا تو اس وقت وہ ایک ناتجربہ کار، غصہ کرنے والی اور مغرور نوجوان لڑکی تھیں۔
امریکی میڈیا سے گفتگو میں ہدیٰ نے بتایا کہ شام جانے کے لیے انھوں نے اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کیا اور اپنی ٹیوشن فیس سے ترکی کا ٹکٹ لیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا ان کے ان تمام معاملات سے اُن کا خاندان لاعلم تھا۔
دولت اسلامیہ کے ساتھ گزارے گئے وقت میں سوشل مییڈیا پر ہدیٰ کی جانب سے کی جانے والی پوسٹس یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے حملوں پر خوشی کا اظہار کرتی تھیں اور دولت اسلامیہ میں شامل ہونے کے لیے امریکیوں کی حوصلہ افزائی کر رہی تھیں۔
نیویارک ٹائمز کی جانب سے ٹوئٹر پر ہدیٰ کی ایک پوسٹ کو شامل کیا گیا ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ یہاں بہت سے آسٹریلوی اور برطانوی ہیں مگر امریکی کہاں ہیں، ’جاگو بزدلو۔‘
تاہم بعدازاں ہدیٰ نے کہا کہ انھیں دولت اسلامیہ کا حصہ بننے پر پچھتاوا ہے اور وہ اس شدت پسند گروہ کی پوسٹس کی تشہیر کرنے پر معافی مانگتی ہیں۔