اسلامی تحریکیںپاکستانی شیعہ خبریںہفتہ کی اہم خبریں

قومی سلامتی پالیسی پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے، علامہ ساجد نقوی

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) سربراہ شیعہ علماء کونسل پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کا کہنا ہے کہ روز اول سے آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی طے شدہ امور ہیں، قومی سلامتی پالیسی جو خارجہ کے ساتھ داخلہ، معیشت و دفاع کے ساتھ جڑی ہے اہمیت کی حامل ہے البتہ اس معاملے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرکے قومی دستاویزات کا درجہ دے کر آگے بڑھا جائے تاکہ اس کے دور رس نتائج بھی برآمد ہوسکیں۔ ملکی سلامتی سے جڑے معاملے پر موجودہ طرز حکمرانی جیسا رویہ ترک کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی سلامتی پالیسی کے اجراء پر اپنے رد عمل میں کیا۔

علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ ہم روز اول سے آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی پر زور دیتے چلے آرہے ہیں، داخلہ و خارجی امور، معاشی، دفاعی اور شہری و آئینی حقوق کے حوالے سے بھی روز اول سے ارباب اقتدار و سنجیدہ فکر شخصیات کو متوجہ کرتے آئے ہیں کہ ”من پسند پالیسی“ کی بجائے جامع و عملی اقدامات اٹھائے جائیں اور اس کا واحد حل متفقہ دستاویز 73 کا آئین ہے جس پر عمل کرکے مسائل کا حل نکالا جاسکتاہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں ریاست مدینہ کے نام پر عوام کی معاشی قتل گاہ تیار کی جا رہی ہے: علامہ احمد اقبال رضوی

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنے قیام کی ڈائمنڈ جوبلی کی طرف بڑھ رہے ہیں، 74 سال گزر گئے مگر متفقہ آئین ہونے کے باوجود ابھی تک ملک کی واضح سمت کا تعین نہیں کرسکے، قومی سلامتی پالیسی کا ویژن متعارف کرایا گیا ہے جو خوش آئند ہے، البتہ یہ معاملہ صرف حکمرانوں کا نہیں ملک کے مستقبل کا ہے، اس لئے اس معاملے پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور اسے قومی دستاویز کا درجہ دیا جائے کیونکہ قومی سلامتی پالیسی وہی قابل عمل و قابل قبول ہوگی جس پر تمام شعبہ ہائے زندگی کا اتفاق رائے ہوگا۔

علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ تشکیل پاکستان اور دستور پاکستان 1973ء کے موقع پر جس طرح اتفاق رائے پیدا کیا گیا اور متحد و متفق ہوکر اپنے ہدف کی جانب بڑھا گیا آج بھی اسی سپرٹ کی ضرورت ہے، اسی صورت میں اس پالیسی کے اہداف حاصل ہونگے اور ملک جن معاشی، داخلی و خارجی مسائل کا سامنا کررہا ہے ان سے نمٹا جاسکے گا اور اگر قومی سلامتی پالیسی پر اتفاق رائے کی بجائے ویسا رویہ اختیار کیا گیا جیسا کہ مروج ہے تو پھر اس پر اتفاق رائے قائم کرنا یا آگے بڑھنا اور اسے قومی سلامتی پالیسی کا نام دینا مشکل ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button