مضامینہفتہ کی اہم خبریں

ایران روس تعاون میں اضافہ، امریکہ اسرائیل پریشان

تحریر: تصور حسین شہزاد

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دورہ ماسکو پر امریکہ میں پریشانی اور افسردگی پائی گئی۔ امریکی انتظامیہ اس دورے سے کافی پریشان ہے کہ ایران، جسے وہ اقتصادی پابندیوں میں جکڑ کر جھکانے کا منصوبہ بنائے پھرتے تھے، وہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور ایران دن بہ دن ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں کیا گیا، جب امریکی فوج افغانستان میں ہونیوالی ذلت کا زخم چاٹ رہی ہے، یمن میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے، مغربی ایشیاء کی صورتحال میں بھی نمایاں تغیر دکھائی دے رہا ہے اور ویانا مذاکرات میں بھی ایران کو فتح ہونے جا رہی ہے، تو ایسے حالات میں تہران ماسکو تعلقات میں بہتری ایران کیلئے بڑی خبر ہے اور امریکہ کیلئے ندامت اور ناکامی ہے۔ دنیا دو واضح بلاکس میں تقسیم تھی، ایک امریکی اور دوسرا روسی، دونوں قوتیں اپنے آپ کو سپر پاور سمجھتی تھیں، روس کی طاقت سوویت یونین کے سقوط کے بعد ختم ہوگئی جبکہ جنرل حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد امریکہ کی رسوائی کا دور بھی شروع ہوچکا ہے۔ جس کا پہلا قدم افغانستان میں دیکھا جا چکا ہے اور امریکہ کی اس ذلت کا دوسرا مرحلہ عراق میں بہت جلد نظر آجائے گا۔

دنیا ان دونوں "لیڈروں” کے پیچھے تھی اور ان میں سے کسی ایک کے انتخاب کے بغیر دنیا میں سروائیو کرنا مشکل تھا۔ مگر ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے دونوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنی نئی راہ کا انتخاب کیا اور اس پر کامیابی سے چل کر دکھا بھی دیا۔ ایران کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے کیلئے امریکہ و روس متحد ہوگئے اور مشترکہ طور پر ایران کیخلاف محاذ کھول دیئے۔ صدام کی شکل میں ایران پر جو جنگ مسلط کی گئی، اس میں یہ دونوں ملک صدام کی پشت پر تھے۔ مگر ایران نے ثابت قدمی دکھائی۔ ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں، باہر کی جنگ کیساتھ ساتھ اندرونی سطح پر بھی بدامنی کو فروغ دینے کیلئے "منافقین خلق” جیسی تنظیموں کو فعال کیا گیا۔ جنگیں مسلط کرنے، دہشتگردی پھیلانے، سخت ترین اقتصادی پابندیوں کے باوجود دونوں سپر طاقتیں مل کر بھی انقلاب اسلامی ایران کو نقصان نہ پہنچا سکیں اور شکست سے دوچار ہوئیں۔ بیسویں صدی کے آخر میں روس کی قوت ٹوٹ گئی، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا نے سمجھا کہ اب دنیا کا گارڈ فادر امریکہ ہوگا اور دنیا اسی کے پیچھے چلے گی، لیکن دنیا کا واحد ملک ایران تھا، جو امریکہ کے مخالف چلتا رہا۔

ایران نے تعمیر نوء کیساتھ ساتھ معاشی بنیادوں پر تیز رفتاری کیساتھ کام کیا۔ مغربی میڈیا اب بھی بے بنیاد پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ ایران معاشی طور پر بہت کمزور ہوچکا ہے، اقتصادی پابندیوں نے ایران کی کمر توڑ دی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ایران نے اس بے بنیاد پروپیگنڈے کو نہ صرف زائل کیا بلکہ اپنی بہتر پوزیشن میں آگے بڑھتا رہا۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد روس نے بھی خود کو امریکہ کی جھولی میں گرا لیا۔ بورس یلتیس نے روس کو امریکہ کا دست نگر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ولادی میر پوتن نے انیس سو ننانوے میں روس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی اور اسے دوبارہ اس کی عظمت رفتہ کی طرف چلانے کا منصوبہ پیش کیا۔ ولادی میر پوتن نے اپنے دو ادوار میں ثابت کر دیا کہ روس بہرحال ایک قوت ہے۔ ولادی میر پوتن نے روس کو ایک بار پھر امریکہ اور نیٹو کے سامنے لا کھڑا کیا۔ ایران اور روس کی تعلقات کی تاریخ مختلف نشیب و فراز سے پُر ہے۔ لیکن خطے کے موجودہ حالات نے ایک بار پھر روس اور ایران کے قریب کر دیا ہے۔ دونوں ملکوں میں باہمی تعاون کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ شام میں داعش کی سرکوبی کیلئے تہران اور ماسکو کا تعاون قابل ذکر ہے۔ اس تعاون نے امریکہ و اسرائیل کی انتہائی خطرناک سازش کا ناکام بنا دیا۔

امریکہ و اسرائیل کی پیداوار داعش کا ہدف صرف عراق و شام نہیں تھے، بلکہ داعش کی نام نہاد خلافت کے دائرے میں پورے خطے کو شامل کرنے کا منصوبہ تھا اور اگر یہ ناپاک منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو دوسرے مرحلے میں امریکہ کی ایک ایسی دہشت ناک پراکسی فورس کی تیاری تھی، جس کے ذریعے پوری دنیا یہاں تک کہ یورپ کو بھی امریکی مفادات میں بلیک میل کیا جانا شامل تھا، مگر روس اور ایران نے مل کر مشرق وسطیٰ میں امریکی عزائم کا جنازہ نکال دیا۔ ولای میر پوتن ثابت کرنا چاہتے تھے کہ روس زندہ ہے، اس کیلئے ایران نے شام میں روس کو پلیٹ فارم فراہم کر دیا، جس سے روس نے اپنی قوت دکھا دی۔ ایران مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور نیٹو کے ناپاک عزائم کا اچھی طرح ادراک رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے شام میں بشار الاسد کی پشت مضبوط کی۔ اس کیساتھ ہی روس بھی بشارالاسد کی حمایت میں میدان میں آگیا۔ روس نے اپنے فوجی بھیجے اور امریکہ و اسرائیل کی آلہ کار داعش کا ناطقہ بند کیا۔ شام میں ایران روس باہمی تعاون نے ایسا ماحول بنا دیا کہ جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ایران اور روس مل کر خطے میں امریکہ و نیٹو کے ناپاک عزائم خاک میں ملا سکتے ہیں۔ اگر ایران اور روس متحد ہو کر چلتے ہیں تو اس سے خطے میں امریکہ کے انخلاء سے اچھے نتائج مل سکتے ہیں اور خطے میں امن کیلئے امریکہ کا یہاں سے نکلنا لازم ہے۔

ایران خطے میں نئے مسلم بلاک کے قیام کیلئے بھی کوشاں ہے۔ ایران نے متعدد بار اس امر کا اظہار کیا ہے کہ اسلامی دنیا بالخصوص مغربی ایشیاء کے ممالک بات چیت کے ذریعے اپنے اختلافی مسائل حل کرکے باہمی تعاون سے ایک دوسرے کی ضروریات کی تکمیل کرسکتے ہیں اور اس طرح سے خطے میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت کا راستہ بھی روکا جا سکتا ہے اور باہمی تعاون کا فروغ ایک مضبوط اسلامی بلاک کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان بھی ایسا ہی خواب رکھتے تھے، مگر امریکی ایماء پر سعودی دباو میں اپنے اس موقف سے انہیں یوٹرن لینا پڑا۔ اب اگر خطے میں امن کی خواہش ہے تو وہ نیٹو اور امریکہ سے نجات میں ہی مضمر ہے۔ ایران تیزی سے امریکی اقتصادی پابندیوں کو روند کر امریکہ کو اس کی اوقات میں رکھنے کیلئے کوشاں ہے۔ پہلے چین کے ساتھ معاہدوں کے بعد اب روس کیساتھ ایران کے معاہدے جہاں ایران کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کا سبب بنیں گے، وہیں امریکہ کیلئے خطے میں مزید رہنا بھی مشکل ہو جائے گا، کیونکہ ایران کا روس سے جدید لڑاکا طیارے خریدنے کا منصوبہ بھی ہے اور ایران یہ طیارے پریڈ میں نمائش کرنے کیلئے نہیں خریدے گا بلکہ اس سے خطے میں موجود امریکی ٹھکانے مزید غیر محفوظ ہو جائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button