چیف صاحب، لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرتے جائیں
تحریر: تصور حسین شہزاد
لاہور سے سینیئر صحافی زاہد عباس ملک 11 مئی کو اپنے فلیٹ سے ’’غائب‘‘ کر دیئے گئے۔ وہ روزنامہ دنیا لاہور سے وابستہ ہیں۔ لاہور کے مختلف اخبارات میں کام کر چکے ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس سے روزنامہ دنیا میں آئے اور کافی عرصے سے ’’دنیا‘‘ سے ہی وابستہ ہیں۔ راقم کو ’’رونامہ پنجاب پوسٹ لاہور‘‘ میں ان کیساتھ کام کرنے کا موقع ملا، وہ نہایت نفیس اور دردمند انسان ہیں۔ اہلیہ نے صبح سویرے فون کیا، فون بند تھا۔ انہوں نے اپنے کزن سے رابطہ کیا اور انہیں زاہد ملک سے رابطہ کرنے کا کہا۔ کزن عامر رضا نے بھی رابطہ کیا، مگر جواب نہ ملا۔ وہ لاہور پہنچا۔ دیکھا اُن کا کمرا کھلا تھا، سامان بکھرا پڑا تھا اور زاہد عباس غائب تھے۔ عامر رضا نے فوراً لاہور کے تھانہ اچھرہ میں زاہد عباس ملک کی گمشدگی کی درخواست دیدی۔ پولیس نے درخواست وصول تو کر لی، مگر مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ انکار کی وجہ یہ تھی کہ درخواست میں واضح لکھا گیا تھا کہ خدشہ ہے کہ ریاستی اداروں نے انہیں غائب کیا ہے۔ پولیس بھی ایسے معاملات میں مداخلت کرنے سے کتراتی ہے۔ یوں پولیس کی جانب سے یہ معاملہ سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، پنجاب یونین آف جرنلسٹس، جرنلسٹس فورم پاکستان اور لاہور پریس کلب سمیت دیگر صحافتی تنظیموں کی جانب سے بھی سینیئر صحافی کی کمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ صحافیوں نے 16 مئی بروز سوموار احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ کسی بھی صحافی کو اس طرح اس کے فلیٹ سے اُٹھا لینا ریاستی اداروں بالخصوص عدلیہ کیلئے بھی سوالیہ نشان ہے۔ ہمارے ملک میں عدالتیں موجود ہیں، ضرورت پڑنے پر رات بارہ بارہ بجے بھی عدالت کھول کر انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔ سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایسے افراد جو لاپتہ کر دیئے جاتے ہیں، انہوں نے ایسا کون سا جرم کیا ہوتا ہے کہ انہیں ماورائے عدالت ہی اپنی ’’ذاتی عدالت‘‘ لگا کر کیس سنا جاتا ہے اور فیصلہ بھی سنا دیا جاتا ہے۔ بلوچستان سے بلوچ علیحدگی پسندوں کے حوالے سے تو آئے روز سنتے تھے کہ لاپتہ ہوگئے ہیں۔ ان کی بازیابی کیلئے ان کے اہلخانہ کے احتجاجی مظاہرے بھی دیکھے۔ مگر پنجاب جیسے صوبے میں، جہاں علیحدگی کی کوئی تحریک ہے نہ ریاست مخالف کوئی محاذ، تو پھر کیا وجہ ہے کہ شریف شہریوں کو رات کے اندھیرے میں غائب کر دیا جاتا ہے۔ کیا ریاستی ادارے کے اس اقدام پر لاپتہ ہونیوالے صحافی زاہد عباس کے بچے ان اداروں کا احترام کریں گے؟؟
ہم بچپن میں سڑک کنارے کھیل رہے ہوتے تھے۔ پاک فوج کے ٹرک گزرتے تو ہم سب دوست قطار بنا کر کھڑے ہو جاتے تھے اور فوج کے ٹرکوں میں بیٹھے فوجیوں کو انہی کے انداز میں سلیوٹ کرتے اور کہتے ’’پاک فوج کو سلام۔‘‘ ہمارے بہت سے عزیزوں نے اپنی ٹرالیوں پر بھی یہ جملہ ’’پاک فوج کو سلام‘‘ لکھوا رکھا ہوتا۔ ہم فوج کو اپنا محافظ سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر محافظوں کی جانب سے ہی ایسے اقدامات شروع ہو جائیں تو پھر کون فوجی ٹرک کو سلیوٹ کرکے ’’پاک فوج کو سلام‘‘ کہے گا؟؟ جنرل باجوہ صاحب، آپ پروفیشنل فوجی ہیں۔ آپ کی تعریفیں ہم نے دشمن فوجی افسران کے منہ سے بھی سنی ہیں۔ کیا ریاستی اداروں میں یہ ماورائے عدالت اقدامات پر آپ جاتے جاتے پابندی نہیں لگا کر جا سکتے کہ ادارے کا تقدس برقرار رہے۔؟ میں نے بہت سے صحافیوں کو فوج کیخلاف گرجتے سنا ہے، مگر فوج کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا، وجہ یہی بیان کی جاتی ہے کہ صحافی غلط فہمی کا شکار ہیں، جلد ان کی غلط فہمی دور ہوگئی تو یہ خود بخود اپنی غلطی پر نادم ہو جائیں گے۔ مگر زاہد عباس ملک چونکہ کوئی بڑا اینکر نہیں، وہ حامد میر یا مطیع اللہ جان نہیں، شائد اس لئے اسے غائب کر دیا گیا ہے۔
زاہد عباس ملک تو فوج کے بھی خلاف نہیں، اس نے تو ریاست مخالف بیانیئے کی بھی کبھی حمایت نہیں کی۔ اس کی شخصیت میں دھیما پن، انسان دوستی، ہر بندے کیساتھ اخلاق و پیار کیساتھ پیش آنا، ان کی عادت ہے۔ لاہور پریس کلب میں متعدد بار ان کیساتھ ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ کبھی بھی شائبہ تک نہیں ہوا کہ وہ کسی غیر قانونی سرگرمی کا حصہ ہوسکتے ہیں۔ چیف صاحب، صحافی معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے، وہ جو دیکھتا ہے، وہی لکھتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میڈیا مالکان کے حکومتوں سے مفادات ہوں اور ہوتے بھی ہیں، لیکن صحافی ورکرز کے کوئی مفادات نہیں ہوتے، وہ اپنے بچوں کا رزق کمانے کیلئے قلم کی مزدوری کرتے ہیں۔ پھر ایک سب ایڈیٹر کیسے کسی کیلئے خطرناک ہوسکتا ہے؟ سب ایڈیٹر تو محض ایک کلرک کی طرح دفتر میں بیٹھ کر ادارے کی پالیسی کے مطابق کام کرتا ہے۔ اس کی ذات کسی کیلئے کیسے خطرہ بن سکتی ہے؟ زاہد عباس ملک ساہیوال سرگودھا سے بچوں کیلئے روزی کمانے لاہور آیا تھا۔ زاہد ملک تو صحافیوں کی کالونی کے فیز ٹو کی تحریک میں کافی فعال کردار ادا کر رہا تھا، وہ صحافیوں کیلئے چھت اور دیگر سہولتوں کیلئے کوشاں تھا، کیا اپنی کمیونٹی کیلئے آواز بلند کرنا اس کا جرم ہے۔؟؟
حیرت کا مقام ہے کہ ایک بے ضرر انسان کو غائب کر دیا گیا۔؟؟ چیف صاحب، چند افسران کے اس اقدام سے ادارے بدنام ہو رہے ہیں۔ ملکی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ یہ ادارے ہمارے ہیں، ان کی بدنامی ہماری بدنامی ہے۔ جناب چیف! زاہد عباس ملک نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو اس پر عائد کئے گئے الزامات منظرِعام پر لائے جائیں، ثبوت عدالت میں پیش کئے جائیں۔ ہم ریاستی اداروں کیساتھ کھڑے ہوں گے اور اگر کوئی ثبوت نہیں تو محض فرض کر لینے سے کسی کو مجرم نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ ملک ہمارا ہے، ہماری صحافی برادری محبِ وطن ہے۔ وہ اپنے ملک کی حرمت کی محافظ ہے۔ آپ سرحدوں کے محافظ ہیں تو ہم صحافی نظریاتی و فکری سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ آپ مجاہد ہیں، تو ہم صحافی بھی محوِجہاد ہیں۔ آپ دشمن کی توپوں کے منہ بند کروا دیتے ہیں، تو ہم قلم کی روشنائی سے پھیلائے گئے زہر کا توڑ کرتے ہیں۔ ہم اور آپ، ایک ہی فریضے کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔ ہم عوام ہیں۔ ہماری حمایت ہی آپ کے مورال کی بلندی کا سبب ہوتی ہے۔ ہمارا تعلق کمزور پڑ جائے تو فوج کے مورال ڈاون ہو جاتا ہے۔ فوجی اسلحہ کیساتھ ساتھ قومی جذبے سے لڑتی ہیں۔ کسی بھی ملک کے عوام کی پشت پناہی ہی فوج کا مضبوط ترین ہتھیار ہوتا ہے۔
ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ضیاءالحق کی باقیات ابھی بھی موجود ہیں، جو ایسی پالیسیاں بناتے اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ یہ باب اب بند ہونا چاہیئے۔ حالیہ سیاسی کشیدگی کے بعد عوامی سطح پر فوج کے حوالے سے کچھ منفی ردعمل آیا ہے۔ ایسی صورت میں تو فوج کو اپنا کردار اور زیادہ مثبت اور نیوٹرل کر لینا چاہیے، تاکہ ادارے کی ساتھ خراب نہ ہو۔ مگر پتہ نہیں کون لوگ ہیں جو ایسے اقدامات مسلسل کئے جا رہے ہیں، جو ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہم بطور صحافی اُمید کرتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جاتے جاتے یہ نیک کام ضرور کر جائیں گے اور اعلان کر دیں گے کہ آئندہ کسی شہری کو لاپتہ نہ کیا جائے۔ اس اعلان سے عوامی سطح پر فوج کی پذیرائی بھی ہوگی اور حمایت میں بھی اضافہ ہوگا۔