لبنان میں اسرائیل کی شکست کا حقیقی سبب حزب اللہ کی طاقت ہے، اسرائیلی ماہر
شیعہ نیوز:اسرائیلی ماہر اور تجزیہ کار تزوے بیریئل نے جون 1982ء میں لبنان پر اسرائیلی جارحیت کی چالیسویں سالگرہ کی مناسبت سے اخبار ہارٹز میں ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں لبنان میں اسرائیلی اقدامات کی شکست کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یاد رہے تزوے بیریئل تل ابیب میں مقتدر حلقوں سے انتہائی قریب تصور کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ جون 1982ء میں جب اسرائیل نے لبنان پر پہلا فوجی حملہ کیا تو حزب اللہ لبنان ایک گمنام چھوٹا سا گروہ تھا لیکن اس حملے کے بعد وہ لبنانی اہل تشیع کے واحد نمائندہ گروہ کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کے نتیجے میں حزب اللہ لبنان ملک کے جنوبی حصے پر قابض ہو گئی اور وہاں اپنا گڑھ تشکیل دے دیا۔ یہ تمام امور اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کے نقاط قوت بن گئے جن کے نتیجے میں 2000ء میں اسرائیل لبنان سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔
اسرائیلی سیاسی ماہر تزوے بیریئل اپنے مقالے میں اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ اسرائیل کو جنوبی لبنان سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر کے حزب اللہ لبنان نے اس ملک کے اہل تشیع کو متحد کرنے کی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور اس کے بعد دیگر عرب ممالک میں بھی "ہلال شیعی” تشکیل پا گیا جو آج مزاحمتی بلاک کی صورت اختیار کر گیا ہے اور امریکہ اور مغرب اسے اپنا دشمن قرار دیتے ہیں۔ یہ بلاک ایران سے شروع ہوتا ہے اور عراق، شام، یمن اور لبنان تک پھیلا ہوا ہے۔ تزوے بیریئل مزید لکھتے ہیں کہ لبنان میں حزب اللہ کے اثرورسوخ میں اضافہ نہ صرف اس ملک میں اس کے پیروکاروں میں اضافے کا باعث بنا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں خطے کے مختلف حصوں میں بھی اہل تشیع کے درمیان ہم آہنگی اور مفاہمت پیدا ہوئی ہے۔ اسرائیلی ماہر نے واضح کیا کہ لبنان کی جنگ طائف معاہدے سے سات سال پہلے شروع ہوئی اور اسرائیل اس میں لبنانی حکومت کو تبدیل کر کے مطلوبہ رژیم برسراقتدار لانے میں ناکام رہا۔
تزوے بیریئل لکھتے ہیں کہ ابتدا سے ہی نظر آ رہا تھا کہ اسرائیل کی جاہ طلبی بے فائدہ رہے گا اور شکست اس کا مقدر بنے گی۔ 1982ء میں لبنان کی پہلی جنگ نے اس ملک میں طاقت کا توازن تبدیل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ اس جنگ کے بعد لبنان میں حزب اللہ کی طاقت بڑھتی چلی گئی اور اس نے اسرائیل کے خلاف فوجی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ملک کے سیاسی میدان میں بھی کامیابیاں حاصل کرنا شروع کر دیں۔ یاد رہے لبنان پر 1982ء میں اسرائیلی حملہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جاری جنگوں پر مشتمل سلسلے کی چھٹی جنگ تھی۔ یہ جنگ لبنان میں اسلامی مزاحمت کا نقطہ آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ حزب اللہ لبنان نے انتہائی محدود وسائل کے ذریعے لبنان میں اسرائیلی اور امریکی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا اور آخرکار 2000ء میں جارح قوتوں کو ملک سے نکل جانے پر مجبور کر ڈالا۔