مضامین

زمانے کے انداز بدل گئے

تحریر: مقدر عباس

مجھے سترہ سال پہلے کا وہ یوم القدس یاد ہے، جب میں پہلی بار مردہ باد امریکہ ریلی میں شریک ہوا۔ سخت پریشر اور خوف کی فضا تھی۔ ہم سے جو عمر میں بڑے تھے، وہ کہتے تھے کہ حکومت تمہیں جیل میں ڈال دے گی۔ یہ سر پھرے جوان ہیں، ان کو حالات کا پتہ نہیں ہے اور بھی پتہ نہیں کیا کیا سننا پڑا۔ مردہ باد امریکہ کہنے والوں پر ایف آئی آرز کٹتیں، لاٹھی چارج ہوتا اور کچھ کو تو جیل میں بھی ڈال دیا جاتا۔ زمانہ گزرتا گیا اور آہستہ آہستہ زمانے پر یہ واضح ہوتا چلا گیا کہ امت مسلمہ کے تمام مسائل کی جڑ، یہی چیمپئن ہے۔ اسرائیل کے ناجائز وجود سے لیکر داعش کے خونریزیوں تک اور آج کی حالیہ صورت حال میں یہ ہر دیکھنے والی آنکھ جان چکی ہے کہ اصل فساد کی جڑ کون ہے۔ فلسطین، شام، یمن، عراق، افغانستان، کشمیر سے لیکر آج تک کی ساری خونریز داستانوں میں اس انسانی حقوقِ بشر کے جھوٹے دعویدار کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔

ہمارے ہمسایہ ملک میں جب انقلاب آیا تو اس کے اندرونی معاملات میں جب اس نام نہاد چیمپئن نے سازشیں جاری رکھیں تو یونیورسٹی کے باشعور جوانوں نے اس کے سفارت خانے کو جاسوسی کا اڈہ کہا اور ان کے سفارتی عملے کو یہ یقین دلایا کہ اب یہ پہلے والا ایران نہیں ہے۔ ان کا خدا امریکہ نہیں تھا، وہ خالق تھا، جس نے شعب ابی طالب میں ڈٹ جانے اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح مبین عطاء فرمائی تھی۔ اس صاحب بہادر نے ہر ملک کی خود مختاری اور اندرونی معاملات میں مداخلت جاری رکھی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ملک عزیز، مادر وطن پاکستان کو اب تک آزاد خارجہ پالیسی نہ بنانے دی اور ایسا غلامی کا طوق پہنایا کہ جب بھی ایک بات مانتے، ساتھ ہی ڈومور کا مطالبہ بھی آجاتا۔ اگر کوئی خود مختار ہونے کی بات کرتا تو اسی ملک کے رہنے والوں کو اُس کے مقابل لا کر تختہ دار پر چڑھا دیتا اور جب اپنے نوکروں سے کام نکلوا لیتا تو ان کا حشر وہی کرتا جو قذافی، حسنی مبارک اور صدام کیساتھ کیا۔ یہ مارنے والوں کو اسلحہ بیچتا اور پھر خون آلود ہاتھوں پر ریشمی دستانے پہن کر جنٹلمین بن کر مدد کرنے بھی پہنچ جاتا۔

داعش کو وجود دینے والا یہی ہے۔ شام و عراق کو تباہی کی زد میں لاکر وہاں سے تیل چوری کرنے والا جنٹلمین یہی ہے۔ جس نے دوسرے ملک کی سرزمین پر مداخلت کرکے عالم اسلام کے عظیم کمانڈر کو خون میں غلطاں کیا۔ کونسا ملک ہے، جو اس کے شر سے محفوظ رہا ہے۔ یہ شر مطلق ہے، جس سے خیر کی کوئی توقع نہیں۔ ملک کے سابقہ وزیر دفاع کا بیان پڑھ کر سر شرم سے جھک گیا اور ساتھ یہ جملہ بھی یاد آیا کہ کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ تمھارا خدا امریکہ ہے کہ جس سے روٹھ جانے سے تمہارے وینٹی لیٹر بند ہو رہے ہیں۔ ہمارے جو جوان اور سیاستدان یہ سمجھتے ہیں، اس کے روٹھ جانے سے ہمیں نقصان ہوگا تو ان کی خدمت میں یہی عرض ہے کہ اس کی مان لینے سے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ سختیوں میں ہی مردوں کے جوہر کھلتے ہیں۔ ہمیں سیاسی پارٹی بازیوں سے نکل کر ایک قوم بن کر فیصلہ کرنا کہ عزت کی راہ کے راہی بننا یا ذلت کی کالک کو اپنے منہ پر ملنا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ جس ملک نے بھی اس سے چھٹکارا حاصل کیا ہے، وہ مستقل بنیادوں پر اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر لا رہے ہیں۔ ان کے سامنے جھکنے کی قیمت، ان کے مقابلے میں ڈٹ جانے سے زیادہ ہے۔ اگر جھک جائیں گے تو پھر ڈو مور کہے گا۔ ملک پاکستان کے موجودہ تناظر میں ہماری قوم کو ملکی مفاد کی خاطر حقیقی معنوں میں ایک قوم بننا ہے۔ جوانوں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں۔ خدا پر یقین کامل رکھتے ہوئے ایک قوم بنیں اور جو پاکستان کی خود مختاری کی بات کرے، اس کا ساتھ دیں۔ جو قومیں اپنی تقدیر خود بناتی ہیں، وہی کامیاب رہتی ہیں۔ ابھی تک کے تجربے نے یہی ثابت کیا ہے کہ ہمیں امریکی غلامی سے نکل کر، ملکی خود مختاری اور سلامتی کی خاطر ہاتھوں میں ہاتھ دینا ہے۔ "نظریات حکومت کرتے ہیں ہتھیار نہیں” اگر ایک قوم جب یہ نعرہ لگا دیتی کہ ربنا اللہ۔ تو پھر فرشتے بھی اس کی مدد کو پہنچتے ہیں۔

قرآن کا حکم یہی ہے۔ "جو کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر ثابت قدم رہتے ہیں، ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں) نہ خوف کرو، نہ غم کرو اور اس جنت کی خوشی مناؤ، جس کا تم سے وعدہ کیا تھا۔”(فصلت آیہ30) اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے نعروں سے بڑھ عملی کام کرنا ہوگا۔ اس بت کو چھوڑ کر حقیقی خدا کے سامنے جھکنا ہوگا۔ مشکلات ضرور ہوں گی، لیکن یاد وہی قومیں رکھی جاتی ہیں، جو عزت کے راستے کی راہی بنیں۔ جب نظریہ لا الہ الا اللہ ہو تو پھر شعب ابی طالب میں پیٹ پر پتھر باندھ کر اور درختوں کی جڑیں کھا کر بھی نہیں جھکتے۔ پھر خدا کی نصرت شامل حال ہو تو وہی پابندیاں لگانے والے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ رہے ہوتے ہیں، لاتثریب علیکم الیوم۔ *پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا للہ*

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button