شریف حکومت اور بدمعاش دہشتگرد، در پردہ تعلقات (2)
اگر نواز شریف عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کرتے ہیں تو القاعدہ کے ناراض ہونے کا خطرہ ہے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ نواز شریف دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پہ آجائیں گے اور ضروری نہیں اسامہ کے جانشین انہیں بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، کیونکہ اب القاعدہ پاکستانی ریاست کو نشانہ بنانا چاہتی ہے اور اسکی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اسکا سبب اسلامی نظام کا نفاذ نہیں بلکہ القاعدہ کے ساتھ پاکستانی دوستوں کی بدعہدی ہے، ورنہ قرار تو یہ پایا تھا کہ نواز شریف اپنی مرضی کا آرمی چیف لائیں گے اور افغانستان میں ملا عمر کی حکومت کے طرز پہ پاکستان میں شریعت نافذ کی جائے گی۔ نواز شریف کی مجبوری ہے کہ وہ پاکستانی ریاست کے مفادات کو پس پشت ڈال کر القاعدہ کے ساتھ خیر سگالی پر مبنی تعلقات استوار کریں، کیونکہ اب امریکہ اور القاعدہ کے درمیان رقیب کا کردار ادا کرنے والے جنرل پرویز مشرف جیل میں ہیں اور زمام حکومت نواز شریف کے ہاتھ میں ہے۔
ایمن الظواہری کی توجہ شام پر ہے اور امریکہ کے ساتھ القاعدہ کے تعلقات معمول پہ آچکے ہیں۔ اوبامہ ایبٹ آباد آپریشن کی کامیابی کے بعد اسامہ کے نام پہ امریکیوں کو ڈرانے کی بجائے اسرائیل کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے القاعدہ کو نہیں بلکہ شیعوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ نواز حکومت کو امریکی تعاون کی سخت ضرورت ہے، القاعدہ سے پرانے مراسم ہیں، اسامہ کی موت کے بعد سعودی عرب کو القاعدہ کے وجود کی صورت میں شام کے خلاف اہم اتحادی نظر آتا ہے، حالانکہ جلاوطنی کے دوران نواز شریف کو القاعدہ سے روابط کی اجازت نہیں تھی۔ اگر نواز شریف دہشت گردوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی حمایت کرتے ہیں تو وزیرستان سے شام تک امریکہ اور القاعدہ کے مفادات ایک ہوچکے ہیں اور پاکستان میں ضیاءالحق کی جگہ نواز شریف ان کی نگہبانی کر رہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل، آئی ایم ایف کے قرضے، امریکی پٹھو سیاسی جماعتوں کی طرف سے نواز شریف کی مکمل حمایت ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں۔
اے پی سی سے قبل حکومت شدت پسندوں سے چند مصالحت کاروں کے ذریعے ’’بلواسطہ‘‘ رابطہ کرچکی ہے۔ حکومت یہ چاہتی ہے کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ ایک رابطے کا نظام قائم کیا جائے، جس کے تحت شدت پسندوں کی ممکنہ مذاکرات کے بارے میں ’’سوچ اور تحفظات‘‘ کا اندازہ لگایا جائے گا۔ طالبان اور انکے سرپرستوں کی ترجیحات کے ساتھ اتفاق کے بعد حکومت نے ایک ڈیل کی۔ یہ ڈیل دو طرح کی ہے، اس کا ایک سرا بین الاقوامی ہے، جو امریکہ سے ہوتا ہوا سعودیہ کے راستے شام تک جا پہنچتا ہے۔ پاکستانی حکومت دہشت گردوں کو ڈھیل دے رہی ہے کہ وہ ترکی اور سعودیہ کے راستے شام میں امریکہ نواز باغیوں سے جا ملیں۔ اس کے عوض پاکستانی حکومت امریکہ کیطرف سے چند ملین ڈالر کی پہلی قسط وصول کرنے کے ساتھ ساتھ پرامید ہے کہ مشرق وسطٰی کا سفر کرنے والے عسکریت پسند زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ بالکل ایسے ہی جیسے امریکہ کی طرف سے ڈالروں کی آمد کے اشارے ملتے ہی ضیاءالحق نے افغانستان کی جنگ میں دخل اندازی کرنے کے لیے یہ کہا تھا کہ عزیز ہموطنو جو آگ ہماری مغربی سرحد پہ لگی ہے وہ پاکستان کے وجود کو ختم کرنے والی ہے، ہمیں اٖفغانوں کا نہیں اپنا دفاع کرنا ہے۔ نواز حکومت بھی انہی نعروں کو دہرا رہی ہے۔ ہم نے اپنے دفاع کا آغاز کیا کیا الٹا اپنے ملک کو جہنم بنا دیا۔ افغانستان بھی ویسا ہی بدامنی اور تباہی کا شکار ہے، روس گیا تو امریکہ آگیا، درمیان میں جو وقفہ آیا، اس دوران کچھ غیر ملکیوں نے افغانستان کو کھنڈر بنانے کے ساتھ اسی تباہی کو پاکستان کی سرحدوں میں دھکیل دیا۔
دوسرے حصے کا تعلق میاں برادران کی دہشت گردوں کے ہاتھوں جان بخشی سے منسلک ہے، لیکن حکمران جماعت پاکستان میں امن اور استحکام کا راگ الاپ رہی ہے۔ دہشت گردوں کو سزائے موت کے عمل درآمد کے اعلان کے بعد طالبان کی طرف سے حکومتی عمائدین کو قتل کی دھمکیاں اس خوف پر مبنی رویے کا اصلی محرک ہیں۔ حکومت میں آنے سے پہلے جب نواز شریف طالبان کے مذاکرات کی بات کرتے تھے تو وہ فقط عسکری اداروں اور زرداری حکومت کو زچ کرنے کی مخالفانہ حکمت عملی کا اظہار تھا۔ حکومت میں آنے کے بعد نواز شریف نے آئی ایس آئی سمیت سکیورٹی کے اداروں سے سنجیدہ بات چیت کی کہ دہشت گردی کو ختم کیا جانا چاہیے، جس کے جواب میں انہیں احساس دلایا گیا کہ اس کا راستہ مذاکرات نہیں بلکہ حتمی اقدام ہے، جس کے بعد انہوں نے مذاکرات کے لیے اتفاق رائے کے فقدان کی بات شروع کر دی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا رہا کہ ملک جن مسائل میں گھرا ہوا ہے وہ ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔
(جاری ہے)