مضامین

ظہور امام عصر (عج) سے پہلے اٹھنے والے پرچموں کا شرعی اور قانونی جواز

شیعہ نیوز: اس حقیقت کے پیش نظر کہ نظریۂ ولایت فقیہ ایران میں مراجع تقلید اور علمائے حق اور ان کی چوٹی پر امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) نافذ ہؤا اور عروج کو پہنچا اور اسلامی جمہوری نظام کے قیام کے بعد یہ انقلابی اور اسلامی نظریہ مغرب کے گماشتوں، لبرل نظریات کے حامل مغرب نواز، مختلف اسباب پر مبنی عداوتوں اور دشمنیوں پر تلے عناصر، انگریزی شیعوں، امریکی سنیوں اور – کبھی تو نادانی کا شکار اپنوں کے اعتراض کا نشانہ بنا – اور ان سب اپنوں اور پرایوں نے شکوک و شبہات کی بارش کردی جن میں سے ایک اہم اعتراض ایک حدیث کے بہانے سامنے آیا اور معترضین نے اپنا جواب پانے کے باوجود ابھی تک اسی حدیث کو اسلامی انقلاب اور مرجعیت و ولایت پر ضرب لگانے کا بہانہ بنائے رکھا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب سے پہلے دنیا بھر میں ظلم و جبر اور غصب و ستم کے سینکڑوں پرچم اٹھے لیکن اس تفکر کے حامل افراد نے اطاعت کی راہ اپنائی اور کبھی بھی انہیں باطل کا پرچم نہیں کہا اور کبھی بھی ائمہ کی حدیثوں کا سہارا لے کر انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی! تو دیکھ لیجئے اور غور کر لیجئے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسلامی احادیث کی رو سے حضرت مہدی (علیہ السلام) کے ظہور سے قبل ہر قسم کا انقلاب، حکومت کا قیام، کسی بھی قسم کی تحریک وغیرہ ناجائز ہی نہیں بلکہ حرام اور ممنوع ہے۔

وضاحت یہ کہ ان میں سے بعض روایات کے مطابق، قیام قائم (عج) سے پہلے کوئی بھی قیام کرنے والا "طاغوت” ہے اور جو بھی پرچم امام کے ظہور سے پہلے اٹھے گا، اس کا حامل طاغوت ہے ۔۔۔ بطور مثال:

1۔ کفر و نفاق کی بیعت

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے اپنے ایک مشہور شاگرد مفضل بن عمر سے فرمایا:

"يَا مُفَضَّلُ كُلُّ بَيْعَةٍ قَبْلَ ظُهورِ القائِمِ فَبَيعَةُ كُفرٍ وَنِفاقٍ وخَديعَةٍ؛ جو بھی بیعت ظہور قائم (عج) سے قبل انجام پائے، تو وہ کفر، نفاق اور دھوکے اور فریب کی بیعت ہے”۔ (1)

2۔ پرچم جس کا حامل طاغوت ہے!

امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

"كُلِّ رَأْيَةٍ تُرْفَعُ قَبْلَ قِيَامِ اَلْقَائِمِ فَهِيَ طَاغُوتٌ؛

جو بھی پرچم قیام قائم (عج) سے پہلے لہرایا جائے، اس کا حامل طاغوت ہے”۔ (2)

3۔ ایسا قیام بازیچۂ اطفال بن کر رہے گا!

امام زین العابدین علی بن الحسین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"وَاللَّهِ لَا يَخْرُجُ وَاحِدٌ مِنَّا قَبْلَ خُرُوجِ الْقَائِمِ عَلَيهِ السَّلَامُ إِلَّا كَانَ مَثَلُهُ مَثَلَ فَرْخٍ طَارَ مِنْ وَكْرِهِ قَبْلَ أَنْ يَسْتَويَ جَنَاحَاهُ فَأَخَذَهُ الصِّبْيَانُ فَعَبِثُوا بِهِ؛ خدا کی قسم! ہم میں سے کوئی بھی حضرت قائم (عج) کے قیام سے پہلے خروج نہیں کرے گا سوا اس کے اس کی مثال اس چوزے کی طرح ہے جو پر نکلنے سے پہلے اپنے گھونسلے سے اڑان بھرے، جس کو بچے پکڑ لیں گے اس سے کھیلیں گے”۔ (3)

4. سفیانی کے خروج تک خانہ نشین ہو جاؤ!

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے اپنے ایک شاگر سدیر سے فرمایا:

"يَا سَدِيرُ اِلْزَمْ بَيْتَكَ وَكُنْ حِلْساً مِنْ أَحْلاَسِهِ وَاُسْكُنْ مَا سَكَنَ اَللَّيْلُ وَاَلنَّهَارُ فَإِذَا بَلَغَكَ أَنَّ اَلسُّفْيَانِيَّ قَدْ خَرَجَ فَارْحَلْ إِلَيْنَا وَلَوْ عَلَى رِجْلِكَ؛ اے سدیر! اپنے سے چپکے رہنا، اور گھر کے بچھونے کی طرح بچھے رہنا، اور جب تک کہ آسمان و زمین ساکن ہیں، تم بھی ساکن رہو، [جب تک کہ آسمانی چیخ نہ سنو] تم ساکن اور بے حرکت رہنا، تو جب تمہیں خبر ملے کہ سفیانی نے خروج کیا ہماری طرف لپک کے آنا خواہ تمہیں پیدل ہی کیوں نہ آنا پڑے”۔ (4)

اسی مضمون پر مشتمل دوسری روایات بھی نقل ہوئی ہیں۔ (5)

جواب:

ہم اس گمراہ کن شبہے کا جواب چند نکات کے ضمن میں دیتے ہیں:

الف) یہ روایات خبرِ واحد کے زمرے میں آتی ہیں اور خبر واحد صرف اس صورت میں حجت ہے جب وہ اسلام کے قطعی اور یقینی احکام اور قرآن کے صریح اوامر سے متصادم نہ ہوں۔ اسلام میں کچھ قطعی اصول ہیں جن کو نظرانداز کرنا اور ان کے خلاف بولنا اور عمل کرنا جائز نہیں ہے؛ جیسے امر بالمعروف، نہی عن المنکر، برائیوں اور بدعنوانیوں کے خلاف جدوجہد کرنا، جہاد فی سبیل اللہ، حق و حقیقت کا دفاع، ظلم و جبر کا فیصلہ کن سد باب کرنا وغیرہ۔۔۔ اور واضح ہے کہ اس قسم کے احکامات کا مکمل نفاذ – جو ہر مسلمان پر فرض ہے – الٰہی حکومت کے سائے میں قیام، اقدام، کافی شافی طاقت اور مستعد افرادی قوت پر موقوف ہے۔ تو کیا جائز ہے کہ چند روایات – جو قطعی الصدور اور قطعی الدلالہ نہیں اور کچھ تو مرفوع ہیں اور ان کا سلسلۂ سند متصل نہیں ہے، – کی وجہ سے ہم ان تمام اصولوں اور قطعی احکام کو ترک کر دیں؟ کیا یہ توقع بے جا نہ ہوگی کہ ہم حکومت قائم نہیں کرتے، دوسرے آ کر ہمارے لئے اسلامی احکام کے نفاذ کا اہتمام و انتظام کریں گے؟

ب) قرآن کی متعدد آیات اور محمد و آل محمد (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کی بہت ساری قطعی الصدور احادیث مسلمانوں کے تیار رہنے اور حق کے لئے قیام کرنے کی دعوت دیتی ہیں جو مذکورہ بالا روایات سے متصادم اور متعارض ہیں۔ جیسے: دفاع، جہاد، عشق شہادت، انتظارِ فَرَج وغیرہ نیز ان حدیثوں سے بھی متصادم ہیں جن کے ضمن میں ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) نے اللہ کے نیک بندوں کی تحریکوں کی تصدیق و تائید کی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button