مضامین

محبت امام حسین ابن علی علیھما السلام اور انسانیت

تحریر: مولانا سید حسین عباس عابدی
بشکریہ:حوزہ نیوز ایجنسی

تاریخ انسانی کی وہ عظیم شخصیت جس کے ناز خدا کا رسول اٹھاٸے، تاریخ بشریت کا وہ انسان کامل جس کے لٸے پیغمبر اکرم ناقہ بنے، وہ انسانی شکل میں نور الہی کا مظہر جو علی مرتضی اور دو عالم کی شہزادی کا لاڈلہ ہو، وہ ناطق قرآن جس کا قصیدہ خدا کی کتاب کے ہر پارے کا ہدف ہو، وہ الہی نماٸندہ جو جنت کے جوانوں کا سردار ہو، وہ بے نظیر انسان جس نے انسانیت کو بچانے کے لٸے اپنا سب کچھ راہ خدا میں نثار کر دیا ہو جس کی یاد بلا تفرہق مذہب و ملت آج بھی ہر زندہ ضمیر انسان کی زندگی کا سرچشمہ حیات ہو یعنی حضرت حسین ابن علی علیھما السلام جن کی عظیم ترین قربانی کی مثال تاریخ بشریت پیش کرنے سے قاصر ہے۔

جس نے مردہ انسانیت کو اپنے خون میں نہا کر دوبارہ زندگی بخشی ہے اور جس کا تعلق کسی خاص مکتب، کسی ایک مذہب اور کسی مخصوص فرقہ سے نہیں بلکہ ہر با ضمیر انسان سے ہے۔ نہ جانے حسین ابن علی علیھما السلام اور انسانیت کا کیسا گہرا ارتباط ہے کہ خدا گواہ ہے کہ ہر سال امام مظلوم کا چالیسواں (اربعین) جیسے جیسے نزدیک آتا ہے دنیا کا ہر شخص چاہے اس کا تعلق کسی ملک یا کسی بھی قوم سے اس کی یاد منانے کے لٸے اور ارض نینوا اور دیدار حرم کی تمنا لٸے نجف اشرف سے کربلا پیدل سفر کرنے اور اس عظیم اجتماع میں شامل ہونے کے لٸے بے قرار ہو جاتا ہے۔

دہر میں اس کی کوئی تفسیر ممکن ہی نہیں
کون سمجھا ہے حقیقت میں کہ کیا ہے کربلا
شوق دیدار حرم اور جذبہ ایماں لئے
کاروان عشق پیدل ہی چلا ہے کربلا

اور اس سفر معنوی میں ہر پہنچنے والا فرد اپنے دل میں وہ سکون و اطمینان کا احساس کرتا ہے جو سال کے کسی اور دن اسے میسر نہیں ہوتی اور کسی مصلحت کے تحت اس میں نہ پہونچنے والا شخص چہلم کے ختم ہونے تک اور جب بھی اسے یاد کرتا ہے تب بھی اس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ کف افسوس مل کر رہ جاتا ہے۔

ایک طرف معصومین کی احادیث میں اربعین اور چالیسویں کی بہت زیادہ تکریم و تعظیم اور دوسری طرف امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لٸے پیدل جانے کی تاکید اور اسے خاص اہمیت دینا بتانا ہے کہ اربعین کی پیش خدا کیا عظمت و منزلت ہے ۔

روایات کی کتابوں میں بہت زیادہ احادیث ذکر ہوٸی ہیں لیکن ہم یہاں اختصار کو مد نظر رکھتے ہوٸے بطور نمونہ دو ہی کو ذکر کرے گے۔

امام حسن عسکری علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :
روي عن أبي محمد الحسن بن علي العسكري عليهم السّلام أنه قال : علامات المؤمن خمس صلاة الخمسين و زيارة الأربعين و التختم باليمين و تعفير الجبين و الجهر ببسم اللّٰه الرحمن الرحيم
( مومن کی پانچ علامتیں ہیں پہلی اکیاون رکعت نماز پڑھنا، دوسری زیارت اربعین، تیسری دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، چوتھی خاک پر سجدہ کرنا اور پانچویں بلند آواز میں بسم اللہ پڑھنا) ١
اسی طرح امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
حَدَّثَنِي أَبِي وَ جَمَاعَةُ مَشَايِخِي عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اَللَّهِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى وَ عَبْدِ اَللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ اَلْحِمْيَرِيِّ وَ أَحْمَدَ بْنِ إِدْرِيسَ جَمِيعاً عَنِ اَلْحُسَيْنِ بْنِ عُبَيْدِ اَللَّهِ عَنِ اَلْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ اَلْجَبَّارِ اَلنَّهَاوَنْدِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنِ اَلْحُسَيْنِ بْنِ ثُوَيْرِ بْنِ أَبِي فَاخِتَةَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ : يَا حُسَيْنُ مَنْ خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِهِ يُرِيدُ زِيَارَةَ قَبْرِ اَلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ اَللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مَاشِياً كَتَبَ اَللَّهُ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةً وَ مَحَى عَنْهُ سَيِّئَةً حَتَّى إِذَا صَارَ فِي اَلْحَائِرِ كَتَبَهُ اَللَّهُ مِنَ اَلْمُصْلِحِينَ اَلْمُنْتَجَبِينَ[اَلْمُفْلِحينَ اَلْمُنْجِحِينَ]حَتَّى إِذَا قَضَى مَنَاسِكَهُ كَتَبَهُ اَللَّهُ مِنَ اَلْفَائِزِينَ حَتَّى إِذَا أَرَادَ اَلاِنْصِرَافَ أَتَاهُ مَلَكٌ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ يُقْرِؤُكَ اَلسَّلاَمَ وَ يَقُولُ لَكَ اِسْتَأْنِفِ اَلْعَمَلَ فَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا مَضَى
(جو شخص اپنے گھر سے امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کی نیت سے نکلے اگر وہ پیدل سفر کرے تو اللہ اس کے ہر قدم پر اس کے لیے ایک نیکی لکھتا ہے اور ایک گناہ محو کرتا ہے یہاں تک کہ حرم کی حدود میں داخل ہو جائے اس وقت خداوند عالم اسے منتخب مصلحین میں سے قرار دیتا ہے یہاں تک کہ وہ زیارت کے مناسک انجام دے زیارت کی انجام دہی کے بعد اسے کامیاب لوگوں میں سے قرار دیتا ہے یہاں تک کہ جب وہ واپسی کا ارادہ کرے تو خدا اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے وہ فرشتہ اسے کہتا ہے کہ رسول خدا نے تمہیں سلام کہا ہے اور کہا ہے کہ تم اپنے اعمال نئے سرے سے شروع کرو اس لئے کہ تمہارے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں۔) ٢

اربعین پر پیدل سفر کر کے حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی زیارت ایک لمبی اور طویل تاریخ پر مشتمل ہے۔ بظاہر تاریخ میں اربعین پر سب سے پہلے عظیم صحابی حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری مدینہ سے کربلا پہنچے۔ اسی طرح مشہور روایت کے مطابق امام زین العابدین علیہ السلام، حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور ان کے ساتھ دیگر افراد بھی چہلم کے روز شام سے واپس مدینہ جاتے ہوئے کربلا پہنچے اور انہوں نے حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری سے ملاقات بھی کی۔ یہ زیارت اربعین کا آغاز تھا جو بعد میں تمام ائمہ معصومین علیہم السلام اور شیعیان اہلبیت اطہار علیہم السلام کا وطیرہ بن گیا اور اگر ہم سیرت معصومین پر نگاہ کرے ہمیں نظر آتا ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی خدا کے گھر کی زیارت کے لٸے کٸی ایک مرتبہ پیدل سفر کیا ہے آل رسول کے اس عمل سے یہ چیز روشن ہو جاتی ہے کہ اللہ کے گھر یا اللہ کے خاص بندوں کی زیارت کے لئے پیدل چلنا ایک مستحسن عمل ہے۔

انسان دشمن طاقتوں نے بہت چاہا کہ حسینیت اور انسانیت کے اس تعلق کا رشتہ توڑ دے اور اربعین کے اس عظیم ترین انسانی و روحانی اجتماع کو کم رنگ یا ختم کردے اور اس نے اپنے اس خبیث مقصد کے تحت مختلف حربے بھی استعمال کٸے اور الگ الگ راستوں پہ اپنے شیطانی مقاصد کے لٸے چل پڑا ۔

یہ شیطان صفت دشمن کبھی متوکل کی شکل میں نظر آیا تو کبھی داعش کی۔ کبھی اس نے اسلحوں کا سہارا لیا تو کبھی باطل حکومتوں کے نا پاک عہدہ داروں کا مگر
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاٸے گا۔

********************

١ ۔ بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام، ج ۹۸، ص ۱۰۶ اور الوافي، ج ۴، ص ۱۷۷

٢ ۔ کامل الزيارات، ج ۱، ص ۱۳۲ اور بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام، ج ۹۸، ص ۲۷

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button