نصر اللہ کی خاموشی سے امریکا اور اسرائیل پریشان کیوں ہیں؟
شیعہ نیوز:حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی خاموشی نے واشنگٹن اور تل ابیب کو رد عمل پر مجبور کر دیا ہے۔
ایک قطری اخبار نے صیہونی حکومت کے ساتھ سمندری سرحدی تنازع اور اس سلسلے میں تل ابیب کی جدوجہد سے متعلق تازہ ترین خبروں کے حوالے سے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل کی خاموشی کی وجہ پر ایک مقالہ شائع کیا ہے۔
فارس خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی ایلچی آموس ہوچشٹین کے جمعے کے روز بیروت کے دورے کے بعد صیہونی حکومت کے ساتھ سمندری سرحدوں کے تعین کے معاہدے کے قریب ہونے کے حوالے سے لبنانی حکام کے پر امید بیانات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
تاہم حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل جنہیں اس مسئلے پر ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات سے آگاہ ہونا چاہیے، گیس فیلڈ کے تنازع کے حوالے سے صیہونیوں کو دی گئی ڈیڈ لائن پر اب بھی عمل پیرا ہیں اور خاموش ہیں۔
قطری اخبار "رائ الیوم” نے اس مسئلے پر ایک نوٹ شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ امید افزا الفاظ ان الفاظ سے ملتے جلتے ہیں جن کا اظہار گزشتہ دس ماہ میں یورپی فریقین نے ایران کے جوہری معاملے کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں کسی معاہدے کے قریب پہنچنے کے حوالے سے کیا تھا۔
مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ لبنانی امید درست ہو اور اس بار یہ اسرائیلی – امریکی نیت اور ارادوں کی تصدیق کرتی ہے کیونکہ اس کا متبادل جنگ ہے۔
لبنان کے وزیر خارجہ عبداللہ بوحبیب نے موجودہ انتظامیہ کے وزیر اعظم نجیب میقاتی سے ملاقات کے بعد اس بات پر زور دیا کہ ہوچسٹین نے نئی تجاویز پیش کی ہیں اور اس میں پیشرفت بھی ہوئی ہے لیکن یہ ابھی حتمی نہیں ہے۔ لبنان لائن 23 اور پورے قانا اسکوائر پر مالکانہ حق رکھتا ہے۔
مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ اسرائیل کی نئی تجاویز کا کیا مسئلہ ہے جس کے بارے میں امید کا اظہار کیا گیا ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ ہر تفصیل سے واقف ہیں کیونکہ ان کے پاس اس کی تمام تفصیلات ہیں، کیونکہ انہوں نے چند ہفتے قبل لبنان کے مقبوضہ علاقوں میں جو چار ڈرون بھیجے تھے اس نے اسرائیلیوں اور امریکیوں کی صفوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا تھا اور دونوں فریق کو رعایت دینے اور معاہدے تک پہنچنے میں تیزی لانے کی ترغیب دی تھی۔
مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ سید حسن نصر اللہ اور مزاحمتی میڈیا صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہے اور ساتھ ہی وہ خاموش ہیں اور انہوں نے امریکی ثالث کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ لبنانی حکومت پر چھوڑ دیا ہے لیکن اگر امریکی ثالث کا مقصد مزید وقت خریدنا اور مذاکراتی عمل کو اسرائیل میں اگلے نومبر میں ہونے والے انتخابات اور ایک ہفتے بعد ہونے والے امریکی قانون ساز اسمبلی کے وسط مدتی انتخابات تک طول دینا ہے تو یہ خاموشی یقینی طور پر جاری نہیں رہے گی۔