مشرق وسطی

غاصب صیہونی حکومت کو تسلیم نہ کرنا اور اقدار کی حفاظت،میڈل کے حصول سے زیادہ اہم ہے، رہبر معظم انقلاب

شیعہ نیوز:رہبر انقلاب اسلامی نے 11 ستمبر 2022 کو اسپورٹس کے شعبے کے شہداء پر دوسرے قومی سیمینار کے منتظمین سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں انھوں نے جو تقریر کی تھی وہ آج پیر 10 اکتوبر 2022 کو اس سیمینار میں نشر کی گئي۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس تقریر میں کھیل اور کھلاڑیوں کے اخلاقیات اور سماج میں ان کے اثرات کے بارے میں اہم گفتگو کی۔

خطاب حسب ذیل ہے:

بسم ‌اللّہ الرّحمن الرّحیم. و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃاللّہ فی الارضین.

اس کانفرنس کا انعقاد کرنے والوں اور "لال مستطیل” فلم بنانے والوں کا شکریہ

آپ کا خیر مقدم ہے عزیزو! اور جو یہ رپورٹیں دی گئيں، آپ اپنے ساتھ اچھی خبریں بھی لائے ہیں۔ میں اس کے لیے بہت شکر گزار ہوں کہ آپ یہ بڑا اور اہم سیمینار منعقد کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کی یہ کوششیں اور اور سچی نیت، جو پورے گروپ میں دکھائي دیتی ہے، ان شاء اللہ خداوند عالم کی توجہ اور حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی تائيد حاصل کرے گي۔ اسی طرح میں ان عزیز بھائيوں کا بھی شکر گزار ہوں جنھوں نے اپنے میڈل مجھے عطا کیے۔ میں "لال مستطیل”(2) فلم بنانے والوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، حالانکہ میں نے فلم نہیں دیکھی ہے، لیکن سنا ہے، بحمد اللہ اسے بنانے والے یہاں تشریف رکھتے ہیں۔ یہ کام ہونا ہی چاہیے، یعنی فن و ہنر کا پروڈکشن اور ان حقائق کا بیان جسے آپ نے بتایا، بہت اہم ہے، اسے انجام پانا چاہیے۔ ان دو حضرات نے یہ کام کیا اور میں نے سنا ہے کہ ٹیلی ویژن پر بھی کچھ شہید چیمپینز کے بارے میں بعض پروڈکشنز آئے ہیں۔ بہرحال یہ کام، بہت اہم ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے۔

اسپورٹس، ذیلی نہیں بلکہ مرکزی حیثیت کا حامل کام

میں آج دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں: ایک بات، شہیدوں، شہادت اور اسپورٹس کے عزیز شہیدوں کے اس پرشکوہ قافلے کے بارے میں اور دوسری بات خود ورزش اور اسپورٹس کے بارے میں۔ ورزش اور اسپورٹس کا معاملہ، ایسا معاملہ ہے جسے حاشیے پر نہیں رکھا جانا چاہیے، بلکہ اصل اور مرکزی موضوع کی حیثیت سے اس پر توجہ دی جانی چاہیے، میں اس سلسلے میں کچھ جملے عرض کروں گا۔

شہیدوں کے زندہ ہونے کے بارے میں قرآن مجید کی صراحت

شہیدوں کے بارے میں قرآن مجید میں دو جگہوں پر واضح الفاظ میں کہا گيا ہے کہ شہید مردہ نہیں، زندہ ہیں۔ یہ بات پوری صراحت سے کہی گئي ہے۔ ایک جگہ سورۂ بقرہ میں کہا گيا ہے: وَ لا تَقولوا لِمَن يُقتَلُ فی سَبيلِ اللَّہِ اَمواتٌ بَل اَحياء(3) یہ لوگ جو خدا کی راہ میں مارے جاتے ہیں، انھیں مردہ نہ کہو، یہ زندہ ہیں۔ اس سے زیادہ واضح اور صاف بات کیا ہو سکتی ہے؟ دوسری جگہ سورۂ آل عمران میں کہا گيا ہے: وَ لا تَحسَبَنَّ الَّذينَ قُتِلوا فی سَبيلِ اللَّہِ اَمواتًا بَل اَحياء(4) صراحت کے ساتھ کہا گيا ہے۔ رہی یہ بات کہ شہیدوں کی حیات کس طرح کی ہے؟ تو یہ ایک الگ موضوع ہے، یقینی طور پر وہ ہماری مادی زندگي سے الگ ہے، برزخی زندگي سے الگ ہے کہ بہت سے دوسرے لوگوں کی روح بھی برزخ میں ایک معنی میں زندہ ہوتی ہے، فعال ہوتی ہے، یہ بھی نہیں ہے، وہ زندگي ایک تیسری چیز ہے اور بہرحال ایک اہم حقیقت ہے، جسے قرآن مجید پوری صراحت سے کہہ رہا ہے۔

شہیدوں کی طرف سے ہمارے لیے خوشخبری: اللہ کی راہ میں جہاد کے راستے میں خوف اور غم نہیں ہے

خیر تو اس زندہ ہونے کے کچھ تقاضے ہیں، جن میں سے ایک اثر انداز ہونا ہے، بنابریں شہداء، اثر انداز ہوتے ہیں۔ چونکہ زندہ ہیں اس لیے زندوں کی زندگي میں ان کا اثر ہوتا ہے، وہ ہم پر کام کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی قرآن مجید کی آیت میں آئي ہے، سورۂ آل عمران کی اسی آيت کے آگے کہا گيا ہے: وَ يَستَبشِرونَ بِالَّذينَ لَم يَلحَقوا بِھِم مِن خَلفِھِم اَلّا خَوفٌ عَلَيھِم وَ لا ھم يَحزَنون‏(5) اس سے کوئي فرق نہیں پڑتا کہ لفظ "علیہم” کی ضمیر کو خود شہیدوں کی طرف پلٹایا جائے یا ہماری طرف، جو اس دنیا میں ہیں، اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ ممکن ہے کہ اللہ کی راہ میں مجاہدت میں کچھ دشواریاں ہوں، یقینا دشواریاں ہیں، لیکن اس کا انجام بہت اچھا ہے، اس راہ کے اختتام پر، اس راستے کے خاتمے پر، نہ تو خوف ہے اور نہ ہی غم و اندوہ، یہ بہت اہم ہے۔ انسان کسی مشکل کو برداشت کرتا ہے، لیکن جس راستے پر آپ چل رہے ہیں، اس کے خاتمے پر "لا خَوفٌ عَلَيھِم وَ لا ھم يَحزَنون” نہ تو خوف ہے اور نہ ہی غم، یہ دو چیزیں انسان کو تکلیف پہنچانے والی ہیں، یہ ہمارے لیے قرآن مجید کے صریحی الفاظ ہیں۔ در حقیقت شہیدوں کا یہ عظیم کارواں ہماری حوصلہ افزائي کر رہا ہے، اس مومن معاشرے کی، جو خدا کی راہ میں قدم اٹھانا چاہتا ہے اور خدا کی مرضی کے مطابق کام کرنا چاہتا ہے، شہیدوں کے اس پیغام سے، اور یہ پیغام پہنچانے والا بھی خود خدا ہے، حوصلہ افزائی ہوتی ہے، وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس راہ میں امید کے ساتھ قدم بڑھائے جا سکتے ہیں اور آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ تو یہ حوصلہ افزائي بھی ہمیں قوت عطا کرتی ہے، آگے بڑھنے اور جدوجہد کا جذبہ دیتی ہے اور جن نمونوں کا آپ نے ذکر کیا، شاید میں اپنی گفتگو کے دوران ان کے بارے میں اشارہ کروں۔

اسلامی نظام کے دور میں، شہادت پسندی کا جذبہ اور شوق

اسلامی نظام کے دور میں ملک کی مجموعی کارکردگي اس طرح کی تھی کہ اللہ کی راہ میں جہاد اور اللہ کی راہ میں شہادت کا جذبہ پیدا ہوا، اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ ہم نے انقلاب سے پہلے کے دور کو اچھی طرح سے دیکھا ہے، میری عمر کا آدھا حصہ، اسی دور میں گزرا ہے اور اس وقت بھی خداوند عالم نے مدد کی تھی جو ہم اس راہ میں قدم بڑھا رہے تھے لیکن اللہ کی راہ میں جہاد اور اللہ کی راہ میں شہادت کا یہ جذبہ، جو اسلامی نظام کے دور میں پایا جاتا ہے، اس وقت نہیں تھا۔ یہ جذبہ اور یہ کشش اس بات کا سبب بنتی ہے کہ معاشرے کے سبھی طبقوں، معاشرے کے تمام افراد میں جہاد کا شوق پیدا ہو اور جن لوگوں میں صلاحیت ہے، ذہنی و روحانی آمادگی ہے، وہ جہاد کے میدانوں میں جائيں، ان ہی میں اسپورٹس کے میدان کے شہداء اور مجاہدین بھی ہیں۔

معاشرے میں اسپورٹس سے وابستہ لوگوں کا گہرا اثر

اسپورٹس کا شعبہ، ایک بااثر طبقہ ہے، کھلاڑی بااثر ہوتا ہے، معاشرے میں اس کی شخصیت، اس کے کام، اس کے اقدام، ایک عام آدمی سے بہت الگ ہوتے ہیں، خاص کر کے وہ کھلاڑی جو مشہور ہو جاتا ہے، نمایاں ہو جاتا ہے، وہ کچھ لوگوں پر اثر ڈالتا ہے۔ اب اگر اس کھلاڑی میں، جہاد کا شوق اور جذبہ پیدا ہو جائے اور وہ جہاد کی راہ میں قدم بڑھائے تو آپ دیکھیے کہ وہ سماج پر کتنے اہم اثرات ڈال سکتا ہے، کیسا جذبہ بیدار کر سکتا ہے! بحمد اللہ یہ کام ہوا، آپ کے انہی پانچ ہزار سے کچھ زیادہ شہیدوں کی برکت سے۔ ان پانچ ہزار سے کچھ زیادہ شہیدوں میں پیشہ ورانہ کھلاڑی اور چیمپین کم نہیں تھے، شاید ان میں سے ایک ہزار سے زیادہ شہید، پیشہ ور کھلاڑی، چیمپین اور اسپورٹس کی اچھی خاصی رینکنگ رکھنے والے تھے، تمام کھیلوں میں۔ یہاں جو نمائش لگائي گئي ہے، اس میں، میں نے دیکھا کہ لکھا ہوا ہے: "اسپورٹس کے 33 شعبوں میں” بہرحال جہاں تک مجھے اطلاع ہے اور جہاں تک میں جانتا ہوں، کھیل اور اسپورٹس کے مختلف شعبوں سے لوگ جہاد کے لیے گئے۔ یہ لوگ گئے اور عالم ملکوت کے چیمپین اسٹیج (پوڈیم) پر، جو دنیا کے چیمپین اسٹیجوں سے بہت اونچا ہے، پہنچ گئے، انھوں نے خود تو یہ اعلی مقام حاصل کیا ہی، ساتھ ہی دوسروں کو بھی اپنے پیچھے بلا لیا۔

ہمارے معاشرے میں اسپورٹس کا ماحول، شہید کھلاڑیوں کی روحانیت سے متاثر

آج ہمارا کھیل اور اسپورٹس کا ماحول، اسی روحانیت اور معنویت سے متاثر ہے جو اسپورٹس کے ہمارے عزیز شہیدوں نے معاشرے میں پیدا کی ہے، یہ روحانیت، آج ہمارے کھیل اور اسپورٹس کے ماحول میں پائي جاتی ہے۔ البتہ ہر ماحول میں ہر طرح کے انسان ہوتے ہیں، روحانیت اور معنویت کے ماحول میں بھی ہر طرح کے لوگ ہیں، اسپورٹس کے ماحول میں بھی ایسا ہی ہے لیکن آج ملک میں اسپورٹس کا ماحول مجموعی طور پر گزشتہ کل سے بہت الگ ہے۔ دینداری کی جھلک، شرع کی پابندی کی جھلک، روحانیت و معنویت کی جھلک اور اسی طرح کی دوسری باتیں، جنھیں میں نے مختلف مناسبتوں سے بارہا اپنی گفتگو میں کہا ہے اور اس وقت بھی بعض لوگوں نے کہا ہے، بہت زیادہ ہیں: وہ بہادر اور باایمان خاتون جو، چیمپین کے مقام پر کھڑی ہے اور جب کوئي غیر مرد اس سے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ مصافحہ نہیں کرتی یا دسیوں لاکھ لوگوں کی نظروں کے سامنے، جن میں سے بہت سے لوگوں کی، حجاب کے خلاف اور عورت کی عفت کے خلاف کام کرنے اور بات کرنے کے لیے ٹریننگ ہوئي ہے، چادر پہن کر اور اسلامی حجاب کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے یا وہ جوان چیمپین جو اپنا میڈل، شہیدوں کے اہل خانہ کو دے دیتا ہے یا وہ باایمان کھلاڑی جو اپنے کھیل میں، چاہے کشتی ہو، ویٹ لفٹنگ ہو یا کوئي دوسرا کھیل ہو، جیت جاتا ہے تو حد سے زیادہ نخرہ دکھانے یا چیخنے چلانے کے بجائے زمین پر گر کر اللہ کا سجدہ کرتا ہے یا ائمۂ معصومین کا نام لیتا ہے۔ یہ سب بڑی اہم چیزیں ہیں۔ ہم لوگوں کو کبھی کبھی کسی چیز کی عادت ہو جاتی ہے اور اس چیز کی اہمیت اور عظمت ہماری نظر میں باقی نہیں رہتی لیکن آج کی دنیا میں، مادہ پرست اور بدعنوان دنیا میں یہ چیزیں بہت عجیب ہیں۔

کھیل کے میدان کی روحانیت، ایرانی قوم کی معنوی و اخلاقی گہرائی کی شناخت کی کسوٹی

میں عرض کرتا ہوں کہ جو لوگ ایرانی قوم کو صحیح طریقے سے پہچاننا چاہتے ہیں وہ اس بات پر توجہ دیں، یہ بہت اہم بات ہے کہ جب ہمارا کوئي جوان کھلاڑی دسیوں لاکھ لوگوں بلکہ کبھی کبھی کروڑوں لوگوں کی نظروں کے سامنے پوڈیم پر جاتا ہے تو اس طرح روحانیت و معنویت کا اظہار کرتا ہے، اللہ اور اولیائے خدا سے عقیدت کا اظہار کرتا ہے، ان چیزوں کو دیکھیے، یہ چیزیں ایرانی قوم کی شناخت اور ایرانی قوم کی معنوی، روحانی اور اخلاقی گہرائيوں کی پہچان کے لیے بہت معنی رکھتی ہیں۔ تو یہ ایک کسوٹی ہے اور بہت اہم کسوٹی ہے۔ اس سال اربعین مارچ میں، کھلاڑیوں کی جو انجمنیں گئي تھیں، ان کے بارے میں حقیر کو بڑی اچھی اچھی باتیں بتائی گئيں، جن میں سے ایک نجف میں امیر المومنین علیہ السلام سے ان کی عقیدت کا اظہار تھا، یہ بہت گرانقدر چیز ہے، یہ معنوی اور روحانی ماحول بہت اہم ہے۔ اللہ کی راہ میں مجاہدت کی برکتوں میں سے ایک یہی ہے کہ وہ روحانیت و معنویت کو سماج کے مختلف طبقوں کے اندر تک پہنچا دیتی ہے، یعنی جب آپ کھلاڑی یا اسپورٹس مینیجر، بعض دینی اور معنوی حدود کے پابند ہوں، تو صرف آپ اس سے بہرہ مند نہیں ہوتے، بہت سے لوگ آپ سے بہرہ مند ہوتے ہیں – پہلے مرحلے میں خود اسپورٹس کا ماحول اور پھر عوام کا عمومی ماحول – اور یہ کام استعداد رکھنے والے لوگوں کو معنویت کے میدان میں لے آتا ہے اور راستہ کھول دیتا ہے۔ بہرحال ایرانی قوم کے سامنے جہاد کا جو میدان ہے، وہ ہر دن ایک الگ طرح کا ہوتا ہے: کبھی وہ مقدس دفاع کی شکل میں تھا، کسی دن دفاع حرم اہل بیت کی صورت میں تھا، آج بھی جہاد کے میدان ہمارے سامنے مختلف شکلوں میں کھلے ہوئے ہیں، میرے خیال میں ان میں سے ہر ایک میں، معاشرے کے اہم اور مشہور لوگوں کی جہادی موجودگي کے بہت زیادہ اثرات ہیں اور یہ بہت گرانقدر ہے۔ تو یہ بات شہداء اور شہادت کے سلسلے میں تھی۔

جسمانی صحت اور روحانی تازگي کے لیے عمومی ورزش کی اہمیت

جہاں تک ورزش اور اسپورٹس کی بات ہے تو میں ورزش کی اہمیت کے پیش نظر اس بارے میں خصوصیت سے بات کرنا چاہتا ہوں، اجتماعی ورزش بھی اور عمومی ورزش بھی، – جس کی ہم سبھی کو سفارش کرتے ہیں – پیشہ ورانہ ورزش بھی اور چیمپین شپ والی ورزش بھی، یہ چیزیں سماجی زندگي کے ذیلی امور کا حصہ نہیں ہیں، سماجی زندگی کے اصلی امور میں شامل ہیں۔

میں نے اجتماعی ورزش کے بارے میں ہمیشہ زور دے کر رہا ہے، ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ سبھی ورزش کریں۔ آج کی اس مشینی اور بہت کم تحرک والی زندگي میں، ہم ضعیفوں کو تو چھوڑیے، حقیقت میں جوانوں میں بھی تحرک نہیں ہے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہیں، یہاں سے جاتے ہیں، وہاں اتر جاتے ہیں، لفٹ میں سوار ہو کر اوپر جاتے ہیں، کوئي تحرک نہیں ہے۔ اس طرح کے ماحول میں، ورزش کوئي مستحب کام نہیں ہے، سب کے لیے ایک واجب اور ضروری کام ہے۔ البتہ مجھ جیسے اور میری عمر کے لوگوں کے لیے ورزش کی ایک الگ قسم ہے، جوانوں کے لیے الگ ہے، ادھیڑ عمر کے لوگوں کے لیے الگ ہے، لیکن سبھی کو ورزش کرنی چاہیے، ورزش کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ یہ جسمانی صحت کے لیے بھی اچھا ہے – ورزش سے جسمانی صحت و سلامتی حاصل ہوتی ہے، یہ جو کبھی کبھی جوانوں کو کچھ عارضے لاحق ہو جاتے ہیں اور انسان کو تعجب ہوتا ہے کہ ایک نوجوان عارضہ قلبی یا برین ہیمریج سے گزر جاتا ہے، یہ سب اسی عدم تحرک کی وجہ سے ہے – اور ذہنی اور روحانی فرحت و نشاط کے لیے بھی اچھا ہے۔ ورزش، فرحت بخش اور نشاط انگیز ہے، جو کام بھی آپ کر رہے ہیں، دستی کام، فکری کام، دفتری کام، علمی کام، اگر ورزش کریں تو اس کام کو بہتر طریقے سے انجام دیں گے، یعنی آپ کی ذہنی فرحت بڑھ جائے گي اور آپ اس کام کو بہتر طور پر انجام دیں گے۔ البتہ اس کے اور دوسرے فوائد بھی ہیں لیکن یہاں ہمارا مقصد انھیں بیان کرنا نہیں ہے۔

پیشہ ورانہ اور چیمپین شپ والے کھیل، اجتماعی ورزش کی ترویج اور قومی افتخار کا باعث

جہاں تک پیشہ ورانہ اور چیمپین شپ والے کھیلوں کا تعلق ہے تو یہ بھی بہت اہم ہیں۔ چیمپین شپ والے کھیلوں کی اہمیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ جب چیمپین شپ والا کھیل وجود میں آتا ہے تو وہ اجتماعی ورزش کی ترویج کرتا ہے؛ اس کی ایک وجہ یہ ہے۔ جب کسی کھیل کا چیمپین مشہور ہوتا ہے اور لوگوں کی نظروں کے سامنے آتا ہے تو وہ نوجوان کو ورزش کے لیے ترغیب دلاتا ہے، یہ پیشہ ورانہ اور چیمپین شپ والے کھیلوں کا ایک فائدہ ہے، البتہ صرف یہی نہیں ہے، بہت سے دوسرے فوائد بھی ہیں۔ ایک دوسرا فائدہ یہ ہے کہ چیمپین شپ والے کھیل، قومی افتخار کا باعث ہیں۔ چیمپین شپ والے کھیلوں میں جب آپ کسی عالمی ٹورنامنٹ میں حصہ لیتے ہیں اور وہاں فتح حاصل کرتے ہیں اور مشہور ہو جاتے ہیں تو پوری قوم خوشی کا احساس کرتی ہے، سربلندی محسوس کرتی ہے، یہ بہت اہم چیز ہے۔ ان لوگوں کو جو مختلف اسپورٹس میں – چاہے وہ دنیا میں رائج انفرادی کھیل ہوں یا اجتماعی کھیل ہوں – عوام کی خوشی کا باعث بنتے ہیں، واقعی مبارکباد پیش کرنی چاہیے، ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو لوگوں کی خوشی کا باعث بنتے ہیں، لوگوں کو خوش کرتے ہیں، انھیں سربلندی کا احساس عطا کرتے ہیں۔

عالمی اداروں میں اسپورٹس کی کامیابی اور دوسری کامیابیوں کا فرق

کھیل کے میدانوں میں حاصل ہونے والی اس کامیابی اور دوسری کامیابیوں میں ایک فرق ہے۔ بہرحال ہماری قوم اور ہر قوم، زندگي کے مختلف میدانوں میں فتوحات حاصل کرتی ہے، سیکورٹی کے میدان میں ہماری کامیابیاں ہیں، علمی و سائنسی میدانوں میں کامیابیاں ہیں، سیاسی میدانوں میں کامیابیاں ہیں، تحقیقاتی میدانوں میں ہماری کامیابیاں ہیں، مختلف طرح کے میدانوں میں ہماری کامیابیاں ہیں لیکن یہ کامیابیاں دنیا کے لوگوں کی نظروں کے سامنے نہیں ہیں۔ بعض کامیابیوں کو ہم جان بوجھ کر چھپا دیتے ہیں، کسی ملک میں کوئي سیکورٹی کے میدان میں کامیابی حاصل کرتا ہے تو وہ اسے آشکار نہیں کرتا بلکہ سیکورٹی کی کامیابیوں کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔ بعض کامیابیوں کو ہم چھپاتے نہیں ہیں لیکن دشمن اسے مشکوک بناتا ہے، جیسے علمی و سائنسی کامیابیاں۔ یہ جو علمی و سائنسی کام انجام دیے گئے، عرصے تک ہمارے دشمنوں کے سکھائے ہوئے پٹھو اپنی باتوں اور تحریروں میں ان کا انکار کرتے رہے کہ جی نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوا ہے، یعنی اسے مشکوک بنایا جا سکتا ہے۔ یا اسے تاخیر سے سمجھا جاتا ہے یا لوگوں کو اس میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ کھیل اور اسپورٹس کے میدان کی کامیابی ایسی نہیں ہے، ایک لمحے میں ملنے والی کامیابی اور اسی لمحے اس کی خبر پہنچ جاتی ہے۔ آپ کی کامیابی کے لمحے ہی دسیوں لاکھ لوگ بلکہ کبھی کبھی کروڑوں لوگ، آپ کی کامیابی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، یہ بہت اہم کامیابی ہے، یہ بہت اہم ہے اور دوسری کامیابیوں کے برخلاف اسے چھپایا نہیں جا سکتا۔ ہاں کبھی کبھی کھیل میں بے ایمانی ہو جاتی ہے، معاندانہ رویہ اختیار کیا جاتاہے، اسی میدان میں کبھی کبھی دشمن، کچھ کام کر جاتے ہیں لیکن زیادہ تر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پاتے، عام طور پر فتح، ایک دم واضح ہوتی ہے اور آپ دیکھتے ہی ہیں کہ اس کا اثر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے اور یہ جیت دنیا میں آپ کے دوستوں کو بھی مسرور کرتی ہے۔

کھیل کے میدان میں فنی کامیابی کے ساتھ ہی اخلاقی کامیابی

ہمارے کسی اسپورٹس ٹورنامنٹ میں، مجھے پتہ چلا – یعنی مجھے مصدقہ خبریں دی گئيں – کئي عرب مسلم ممالک میں، جن کا نام میں نہیں لینا چاہتا، لوگ اکٹھا ہوئے اور ٹیلی ویژن پر میچ دیکھنے لگے، جیسے ہی انھوں نے دیکھا کہ ایران جیت گيا تو انھوں نے سب کے سامنے سڑک پر جشن اور خوشی منانا شروع کر دیا کہ ایران نے فلاں موذی اور خبیث سیاسی طاقت کو دھول چٹا دی! ایسا ہوتا ہے نا! یہ سب کی آنکھوں کے سامنے والی فتح ہے۔ تو ایرانی کھلاڑی یہاں اپنے رویے سے، اس فنی فتح کو اخلاقی فتح میں بدل سکتا ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے یعنی جب آپ نے کسی میچ میں فتح حاصل کرلی اور آپ کو فنی جیت مل گئي تو آپ اسی فنی جیت کو ایک اخلاقی کامیابی سے جوڑ سکتے ہیں، جیسے جوانمردانہ کھیل، جیسے یہی کام جو ہماری خواتین کھلاڑی کرتی ہیں یعنی اسلامی حجاب اور اسلامی حدود کی پابندی اور خود اعتمادی کا مظاہرہ۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے، اگر یہ اس فنی جیت سے زیادہ اہم نہیں ہے تو اس سے کم بھی نہیں ہے۔

غاصب صیہونی حکومت کو تسلیم نہ کرنا اور اقدار کی حفاظت، میڈل کے حصول سے زیادہ اہم

لہذا میں تاکید کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمارے عزیز کھلاڑیوں کو سفارش کی جائے کہ کھیل کے میدانوں میں کامیابی کے اس پہلو کو فراموش نہ کریں، اس بات کا خیال رکھیں کہ میڈل کے لیے اقدار کو پامال نہ کیا جائے۔ کبھی کبھی انسان میڈل سے محروم ہو جاتا ہے لیکن وہ فاتح ہوتا ہے۔ اگر کسی نے اس اصول کو پامال کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے فنی اور ظاہری فتح حاصل کرنے کے لیے اس اخلاقی فتح کو پامال کر دیا۔ اگر آپ نے اس کے ساتھ میچ کھیلا تو درحقیقت اس غاصب حکومت، بچوں کا قتل کرنے والی اور اس جلاد حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا۔ بنابریں جتنا بھی فائدہ ہو، اس کی اتنی قیمت نہیں ہے کہ انسان اس کے ساتھ میچ کھیلے۔ سامراج کے سرغنہ اور ان کے پٹھو اور درحقیقت بڑی عالمی طاقتوں کے زرخرید فورا چیخنے لگتے ہیں کہ "جناب! کھیل کو سیاسی میدان کا اکھاڑا نہ بنائیے۔” بسم اللہ! آپ نے دیکھا ہی کہ خود ان لوگوں نے یوکرین کی جنگ(6) کے بعد کھیل اور اسپورٹس کے ساتھ کیا کیا! سیاسی مسئلے کے لیے بعض ملکوں کے اسپورٹس پر پابندی لگا دی(7) یعنی خود انھیں جہاں بھی ضرورت ہوتی ہے، جہاں ان کے مفادات کا تقاضا ہوتا ہے وہ بڑی آسانی سے خود اپنی ریڈ لائنز کو کراس کر جاتے ہیں اور یہی لوگ، جب ہمارا کھلاڑی صیہونی حریف سے میچ نہیں کھلیتا تو اعتراض کرتے ہیں۔

کھیل کے میدان کے باہر کے رویے میں اپنی اور قوم کی عزت و آبرو کی حفاظت

ایک اور نکتہ عرض کروں اور اپنی گفتگو کا خاتمہ کروں۔ ہمارے عزیز چیمپینز اور کھلاڑی جو کھیل کے میدانوں میں حصہ لیتے ہیں – چاہے وہ ملکی میدان ہوں یا غیر ملکی میدان ہوں – اس بات پر توجہ رکھیں کہ صرف کھیل کے میدان میں ہی کیمروں کی آنکھیں ان پر مرکوز نہیں ہیں بلکہ میدان کے باہر بھی کیمرے انھیں دیکھ رہے ہیں، رائے عامہ، مختلف آنکھیں، کبھی بری نیت والے، ان پر نظر رکھتے ہیں تاکہ ان کی کوئي اخلاقی کمزوری، کوئي کمزور رگ تلاش کر لیں اور اس کے ذریعے، اس نے میدان میں جو کامیابی حاصل کی ہے، اسے دبا دیں۔ میدان میں کامیاب ہو جاتا ہے، میدان کے باہر غلطیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، لہذا کھلاڑی میدان کے باہر بھی اپنے رویے کی طرف سے چوکنا رہیں اور جان لیں کہ انھیں اپنی حیثیت، اپنی عزت، اپنی آبرو کی حفاظت کرنی ہے، اپنی عزت و آبرو کی بھی اور ملک و قوم کی عزت و آبرو کی بھی۔ ہمارے چیمپینز کے سامنے بہت سارے جال بچھائے جاتے ہیں۔

مغربی اسپورٹس سیکھیں لیکن مغربی کلچر سے متاثر نہ ہوں

البتہ ہمارے زمانے میں، قدیم ایام میں کھیل اور ورزش کا ماحول، ملک میں مغربی اسپورٹس کی آمد سے پہلے، ہمیشہ مذہبی ماحول تھا، پرانے کھیل، یہ اکھاڑے اور کھیلوں کے یہ پرانے مراکز جو ہم نے دیکھے تھے، سب کے سب خدا کے نام اور ائمہ کے نام سے اور اسی طرح مذہبی اور اخلاقی پہلوؤں سے آراستہ تھے۔ مغرب والوں نے کوشش کی کہ ان نئے اور پیشرفتہ کھیلوں کو ملک میں داخل کرنے کے ساتھ ہی اپنی ثقافت کو بھی ملک میں گھسا دیں۔تو ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نیا کھیل جو اس فریق نے تیار کیا ہے، جیسے فٹبال، والیبال اور دوسرے کھیل، اجتماعی کھیل، ہم سیکھیں، ان میں پیشرفت کریں، پیشہ ورانہ طریقے سے کھیلیں لیکن اس کی ثقافت کو نہ اپنائيں، اس کھیل کو اس مغربی کلچر کے لیے ایک پل نہ بننے دیں، اپنی ثقافت کو اس پر غلبہ دلائیں۔ یہ وہ بنیادی جملہ ہے جس پر ہمیں کھیل اور اسپورٹس کے سلسلے میں بھرپور توجہ دینی چاہیے۔

بہرحال میں آپ سب کے لیے دعاگو ہوں۔ ہمارے اس عزیز جوان نے کہا کہ ہمارے لیے دعا کیجیے، میں ضرور آپ کے لیے اورآپ کی کامیابی کے لیے، آپ کی فلاح کے لیے، آپ کی سعادت کے لیے خداوند عالم سے دعا کروں گا۔ میں ان لوگوں کا بھی دل کی گہرائي سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس سلسلے میں کوشش کی – خواتین کھلاڑی، جوان کھلاڑی – اور کھیل کے میدان میں معنویت و روحانیت کا مظاہرہ کیا، ایرانی اور اسلامی تشخص کا مظاہرہ کیا، میں ان سب کے لیے خداوند عالم سے توفیق کی دعا کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ ہمارے کھلاڑی شہیدوں اور تمام شہیدوں کی پاکیزہ ارواح ہم سے راضی رہیں اور خداوند عالم ہمیں بھی ان سے ملحق کرے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللّہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتدا میں اسپورٹس اور نوجوانوں کے امور کے وزیر جناب سید حمید سجادی، کھلاڑیوں کی انجمن کے سربراہ جناب مہدی میر جلیلی اور ویٹ لفٹنگ کے چیمپین علی داؤدی نے رپورٹیں پیش کیں۔

(2) فلم "لال مستطیل”، جس کے ہدایتکار حسن صید خانی اور حسین صید خانی برادران اور پروڈیوسر سید علی رضا سجادپور ہیں۔ یہ فلم مقدس دفاع کے دوران ایلام کے چوار علاقے کے عوام کی بہادری اور اس علاقے کے فٹبال کے میدان پر بمباری کی حقیقی داستان پر مبنی ہے۔

(3) سورۂ بقرہ، آيت 154، اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔

(4) سورۂ آل عمران، آيت 169، اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انھیں ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں۔

(5) سورۂ آل عمران، آيت 170، اور اپنے پیچھے آنے والوں کے بارے میں بھی، جو ابھی ان کے پاس نہیں پہنچے، خوش اور مطمئن ہیں کہ انھیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی حزن و ملال۔

(6) روس اور یوکرین کے درمیان فوجی ٹکراؤ جو کئي مہینے سے جاری ہے۔

(7) عالمی اداروں میں مغربی ملکوں کے اثر و رسوخ اور ان کی طاقت کے باعث یوکرین کے خلاف روس سے تعاون کے جرم میں روس اور بیلاروس کے تمام کھلاڑیوں پر کسی بھی عالمی اسپورٹس ٹورنامینٹ میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئي ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button