پاکستانی شیعہ خبریںہفتہ کی اہم خبریں

متنازعہ فوجداری بل مذہبی منافرت، دہشتگردی پھیلانے، شیعہ حقوق کو سلب کرنے کی مذموم کوشش ہے، علامہ سبطین سبزواری

شیعہ نیوز:شیعہ علماء کونسل کے مرکزی نائب صدر علامہ سید سبطین حیدر سبزواری نے واضح کیا ہے کہ متنازعہ فوجداری بل کا مقصد ملک میں انتشار، مذہبی منافرت، فرقہ واریت اور دہشتگردی پھیلانے کیساتھ شیعہ کے مذہبی حقوق کو سلب کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ جسے ان شاءاللہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ پریس کانفرنس میں وفاق المدارس الشیعہ کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری، علامہ حافظ کاظم رضا نقوی، قاسم علی قاسمی، علامہ امجد علی عابدی، علامہ حسن رضا قمی، علامہ رائے ظفر علی خان، مولانا سید محمد رضا موسوی، لعل مہدی خان، سید اذہان کاظمی، مولانا صفدر علی، جعفر علی شاہ، صغیر عباس ورک، پروفیسر علمدار بخاری اور دیگر بھی موجود تھے۔ اس حوالے سے علامہ سید ساجد علی نقوی، وفاق المدارس الشیعہ کے علامہ حافظ ریاض حسین نجفی اور مفسر قرآن علامہ الشیخ محسن علی نجفی کا مشترکہ بیان ہماری پالیسی ہے۔

انہون نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ متنازعہ بل کی منظوری استحکام پاکستان کیخلاف ہے، ہم خود ملک کی ایک بڑی سیاسی قوت ہیں اور جمہوری عوامی جدوجہد سے اپنے حقوق کا تحفظ کرنا جانتے ہیں، لیکن تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور علاقائی جماعتیں جو شیعہ عوام کے ووٹ بھی لیتی ہیں، متنازعہ قانون سازی کیخلاف اپنا کردار ادا کریں، ہم وزیراعظم، صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ، چیف جسٹس اور آرمی چیف سے بھی متنازعہ اور غیر ضروری بل کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ مکتب اہل بیت، اہلسنت کے مقدسات کا احترام کرتا اور باہمی احترام پر یقین رکھتا ہے، اور اس حوالے سے شیعہ فقہا و مجتہدین کے فتاویٰ موجود ہیں۔ لیکن مقدس ناموں کی آڑ میں اہل تشیع کو دیوار سے لگانے کی ہر سازش کو ناکام بنائیں گے۔ یہ ہمارے وجود کا مسئلہ ہے۔ ہم اتحادبین المسلمین کے تمام فارموں پر نمائندگی رکھتے ہیں۔ لیکن اتحاد کا مطلب ایک مکتبہ فکر کا دوسرے میں ادغام نہیں کہ دوسرے اپنے عقائد ہم پر مسلط کریں۔

انہوں نے کہا کہ اتحاد کا مطلب اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کو تسلیم کرنا ہے۔ یہ بل قرآن و سنت کیخلاف ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق کوئی قانون قرآن و سنت کیخلاف نہیں بن سکتا۔ اہلبیتؑ کی محبت قرآن و سنت کے مطابق واجب اور صحابہ اور امہات المومنین کا احترام ضروری ہے۔ متنازعہ بل میں بہت سے قانونی سقم موجود ہیں۔ متنازعہ بل کالعدم، تکفیری، دہشتگرد گروہ کے ہاتھ میں خنجر دینے کے مترادف ہے۔ انہوں ںے کہا کہ بل کو پیش کرنیوالے ناصبی عناصر، پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کو نشانہ بنانے والے دہشتگرد گروہ کے نظریاتی ساتھی ہیں۔ علامہ سبطین سبزواری نے کہا پاکستان شیعہ سنی نے مل کر بنایا ۔پھر فرقہ واریت اور دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے کے لئے اختلافی مسائل کو اجاگر کیا جاتا رہا ۔ لیکن ملک کے امن پسند قائدین نے ملی یکجہتی کونسل اورمتحدہ مجلس عمل کی شکل میں یہاں اتحاد وحدت کے پلیٹ فارم تشکیل دیئے۔ جس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں بہتری پیدا ہوئی لیکن لگتا ہے کہ ملک اور اسلام دشمن عناصر یہ برداشت نہ کرسکے۔تو چور دروازے سے متنازعہ قانون سازی کے ذریعے کچھ شرپسند استعماری عناصر اہل تشیع کو دیوار کے ساتھ لگانے اور اپنا عقیدہ ہم پر مسلط کرنے کی سازشیں کرنے لگے۔

علامہ سبطین سبزواری نے کہا کہ قائد اعظم کو ”کافر اعظم“ قرار دینے والے کانگریسی ملاوں کی اولادیں ملک میں انتشار پیدا کرکے امن کو تباہ اور ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی سازش کر رہی ہیں۔ ہزاروں معصوم شہریوں کے خون سے آلود دہشت گرد تکفیری گروہ کا سرغنہ تسلیم کر چکا ہے کہ متنازعہ فوجداری بل میں انہوں نے جماعت اسلامی کو استعمال کیا۔ ہمارا سوال جماعت اسلامی کی قیادت سے بھی ہے کہ مولانا مودودی اور قاضی حسین احمد کی جماعت فرقہ پرستوں اور دہشت گردوں کی سرپرست اور وکیل کب سے ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ عوام شرپسندوں کے مکروہ چہروں کو پہچان چکے ہیں۔ ماضی کا متنازعہ شریعت بل ہو، نام نہاد بنیاد اسلام بل یا کچھ اور، شیعہ قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی بھی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ شیعہ علماء کونسل کے رہنما نے واضح کیا کہ شیعہ صحابہ کی توہین کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور نہ ہی ہمارے عقائد کا یہ حصہ ہے۔ لیکن ہم اہلبیت اطہارؑ کے دشمنوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہم احترام صحابہ اور امہات المومنین کے قائل ہیں۔ اور جو قانون پہلے سے موجود ہے، اس کی جو بھی پوزیشن ہے اس کو برقرار رکھنے کے حامی ہیں۔

علامہ سبطین سبزواری نے نشاندہی کی کہ دہشتگرد گروہ کی طرف سے گزشتہ کچھ عرصے سے جو مقدمات درج کروائے گئے ان میں توہین یزید، فیس بک پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک ہی بیٹی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ کا لکھنے، 18 ذو الحجہ کو عید غدیر کی مبارکباد دینے، کونڈوں کی نیاز کھلانے، گھر کی دیوار پر ”دم دم یا علی علیہ السلام “ لکھنے، امام حسین علیہ السلام کے قاتل عمر بن سعد پر لعنت کرنے، گھر پر علم لگانے اور دعائے کمیل پڑھانے پر شرمناک ایف آئی آرز درج کی جا چکی ہیں۔ یہ پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں عقائد پر ہونے والا بدترین اور انوکھا ترین ریاستی سلوک ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس بل کو واپس لیا جائے۔ ہم اتحاد بین المسلمین چاہتے ہیں لیکن اگر کوئی شیعہ کو کسی مسلک میں ضم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ یہ اس کی بھول ہے، ہم بھرپور مزاحمت کریں گے۔ ضرورت پڑی تو پارلیمنٹ کا گھیراو بھی ہو سکتا ہے۔ ہم نے ایسے کئی مذموم اقدامات کا سامنا مختلف آمریتوں کے دور میں بھی دیکھا اور اپنے حقوق کو منوایا۔

ہم ارکان سینیٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کسی بھی ایسے بل کو منظور کرنے کی سازش میں شامل نہ ہوں۔ جس سے مکتب اہل بیتؑ کے پیروکاروں کے عقائد کو سلب کیا جا سکے۔ یہ بل دہشتگردی اور فرقہ واریت کے نئے دروازے کھولے گا۔ پہلے بھی اس ملک میں ہزاروں افراد دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ جسے کچھ اسلام اور ملک دشمن عناصر دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن شیعہ کی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے سر کٹوا دیا مگر جھکایا نہیں۔ مکتب اہلبیت کی عزت و آبرو کیلئے آئندہ بھی کسی انتہائی اقدام سے گریز نہیں کریں گے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ ہم اپنے عقائد پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ان شاءاللہ ہم آئندہ بھی ثابت کریں گے کہ اہلبیتؑ کا دشمن ہی ناکام اور نامراد رہے گا۔ ہمارا مشورہ ہے کہ صدیوں سے تاریخ میں موجود اختلافی مسائل کو نہ چھیڑیں، مشترکات کو فروغ دیں۔ ہم جان دے سکتے ہیں، مکتب اہلبیتؑ کی توہین برداشت نہیں کر سکتے۔

ایک سوال کے جواب میں علامہ افضل حیدری نے کہا کہ اصحاب ذی وقار کی توہین جائز نہیں، اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ہم مقدسات اہل سنت کا احترام کرتے ہیں، بتائیں یزید کس کے مقدسات میں شامل ہے؟ہم شیعہ اس لئے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا’ خلیفہ بلافصل‘ مانتے ہیں اور اہل سنت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہہ کو خلیفہ اول مانتے ہیں، تو دونوں کا صدیوں پرانا عقیدتی اختلاف ہے، دونوں اپنے اپنے عقیدے پر موجود رہیں اپنی رائے کو دوسرے پر مسلط نہ کریں۔ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن کوئی اپنا عقیدہ ہم پر مسلط نہ کرے، اور ایسا کبھی نہیں ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button