سعودی عرب میں ایک اور شیعہ نوجوان کی جان کو خطرہ
انسانی حقوق کی بعض تنظیموں نے مراکش کی حکومت کی جانب سے سعودی عرب کے شیعہ کارکن کو اس کے ملک کے حوالے کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے مغرب کی عدلیہ کی جانب سے سعودی کارکن "حسن آل ربیع” کو ان کی جان کو لاحق خطرے کے باوجود اس کے ملک کے حوالے کرنے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔
انسانی حقوق کی ان تنظیموں نے مراکش کے وزیراعظم عزیز اخنوش کو ایک خط بھیج کر آل ربیع کی حوالگی کے حکومتی معاہدے کی شدید مذمت کی۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ مغرب نے اس سعودی شیعہ کارکن کو 6 فروری کو سعودی حکام کے حوالے کردیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بات پر زور دیا کہ آل ربیع کو ان کے خاندان کی جانب سے سیاسی مظاہروں میں شرکت کرنے اور ان کے مذہبی عقائد سے متعلق وجوہات کی بنا پر اب ظلم و ستم اور سنگین ضرب و شتم کے سنگین خطرے کا سامنا ہے۔
انسانی حقوق کی ان تنظیموں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ مراکش کی حکومت نے انسانی حقوق کے اصول اور عدم تحفظ کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے کنونشن برائے افریقی مہاجرین، تشدد کے خلاف کنونشن اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
ان تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق مراکش کی عدلیہ نے ان تمام انتباہات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک سعودی کارکن کو ان کے ملک کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
14 جنوری کو مراکش کے ہوائی اڈے پر گرفتار ہونے کے بعد حسن آل ربیع پہلے عدالت میں پیش ہوئے اور پھر انہیں "ٹفلیٹ-2” جیل بھیج دیا گیا تاکہ ان کی سعودی حوالگی کے حوالے سے رباط کی اپیل کورٹ کا فیصلہ سنایا جائے۔
اس سعودی کارکن کے بھائی "علی آل ربیع” کو سعودی حکام نے جھوٹے الزامات کی وجہ سے موت کی سزا سنائی گئی ہے۔