مضامین

قمر بنی ہاشم، علمدار کربلا، حضرت عباس ابن علی ؑ

چار شعبان المعظم کا دن ایثار و وفا کے پیکر، علیؑ کی تمنا، ام البنین ؑ کی آس، حسن ؑ و حسین ؑ کے قوت بازو، زینب سلام اللہ علیہا و ام کلثوم سلام اللہ علیہا کی ڈھارس، قمر بنی ہاشم حضرت ابو الفضل العباس ؑ کا یوم ولادت ہے۔ وہ دن جب خانہ امیر المومنین ؑمیں مسرت و خوشی کا ماحول بنا، علی ؑکے شیر دل، باوفا بیٹے کی اس دنیا میں آمد سے خانہ اہلبیت ؑ میں عجیب کیفیات سامنے آئیں، اگرچہ حضرت عباس ؑ کا نام نامی تاریخ میں ایک بے مثال و بے نظیر شخصیت کے طور پر موجود ہے، مگر تاریخ کے منابع میں ان کے حوالے سے بہت دقیق معلومات بہت کمیاب ہیں۔ اسی وجہ سے برصغیر کے معروف عالم دین علامہ ذیشان حیدر جوادی حضرت قمر بنی ہاشم کے حوالے سے تاریخ کی غفلت کا نوحہ لکھتے ہیں کہ۔۔ "تاریخ کی بے انتہاء غفلت ہے کہ اس نے ایسے عظیم وجود کی تاریخ بھی معین نہ کی اور بنی ہاشم کے ماہتاب کی تاریخ طلوع بھی مقرر نہ ہوسکی، لیکن اتنا بہرحال مسلم ہے کہ قمر بنی ہاشم کے طلوع کا سال 26 ہجری ہے۔”

علامہ عزالدین جزری نے اسد الغابہ میں اور شیخ سماوی نے البصار العین میں یہ تصریح فرمائی ہے کہ آپ کا سن ولادت 26 ہجری ہے۔ حضرت نعمت اللہ الجزائری نے انوار نعمانیہ میں اسی قول کا تذکرہ کیا ہے اور صاحب تنقیح المقال کا بھی یہی بیان ہے۔ ان سب سے بالا تر علامہ دائودی کی العمدہ کی روایت ہے، جس میں صادقِ آلِ محمد ؑ نے حضرت عباس ؑ کے فضائل و کمالات کا تذکرہ فرمایا ہے اور اس کے تتمہ میں یہ فقرہ ہے "قتل ولہ اربع و ثلثون سنۃ” آپ 34 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ آپ کی ولادت کا سال 26 ہجری ہے۔ مذکورہ بالا شہادت کے بعد مزید کسی تاریخی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے، صرف یہ مسئلہ باقی رہ جاتا ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت کی تاریخ کیا ہے۔؟ علامہ عبد الرزاق مقرم نے علامہ السید محمد عبدالحسین بن السید محمد عبد الہادی الجعفری "انیس الشیعہ” کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت کی تاریخ 4 شعبان المعظم ہے۔

مورخ یگانہ برادر محترم مولانا نجم الحسن طاب ثراہ کراروی نے مختلف حوالوں سے مختلف تاریخیں درج کی ہیں۔
۱۔ 19 جمادی الاول یا 18 رجب بحوالہ جواہر زواہر قلمی (یہ حقیر کے جد امجد کا قلمی رسالہ ہے، جو غریب خانہ پر محفوظ ہے۔ اس کے مندرجات کے استناد کا کوئی علم نہیں ہے۔ یہ احتمال ضرور ہے کہ جد مرحوم حضرت آیت اللہ مولانا السید امجد حسین طاب ثراہ کے محرر فتاویٰ تھے۔۔۔۔ لہٰذا ممکن ہے کہ آپ نے یہ معلومات انہیں مرحوم سے حاصل کی ہوں۔ (جوادی)
۲۔ 26 جمادی الثانیہ مولانا سلیم جرولی بحوالہ محرق القراد۔
۳۔ 18 رجب بحوالہ آئینہ تصوف طبع رام پور ۱۳۱۱ھ
برادر محترم طاب ثراہ نے ان اقوال پر روایتی انداز کی بحث کی ہے، لیکن اس روایت سے پہلے روایت کے اسلوب پر بھی نظر کرنا ضروری ہے۔ یہ اقوال جن کتابوں سے نقل کئے گئے ہیں، ان میں سے کسی کا زمانہ تالیف چودھویں صدی سے آگے کا نہیں ہے۔

4 شعبان کی روایت انیس الشیعہ کی ہے، جسے اس کے مولف نے یکم شعبان ۱۲۴۴ھ کو سلطان فتح علی شاہ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیا تھا۔ یعنی اس زمانہ تالیف کی تیرہویں صدی ہجری کے نصف سے پہلے کا ہے۔ اس لئے مآخذ میں اس کتاب کو اولیت کا درجہ حاصل ہے اور وہ یقیناً زیادہ معتبر کہی جاسکتی ہے۔ روایات کے مطابق، جب آپ پیدا ہوئے تو امام علیؑ نے اپنی گود میں لیا اور اسے عباس نام دیا اور ان کے کانوں میں اذان اور اقامت پڑھی۔ پھر اس کے بازوؤں کا بوسہ لیا اور رونے لگے تو ام البنین نے رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا تمہارے بیٹے کے دونوں بازو حسینؑ کی مدد میں تن سے جدا ہونگے اور اللہ تعالیٰ ان کے کٹے ہوئے بازوؤں کے بدلے اسے آخرت میں دو پر عطا کرے گا۔ عباس کے دونوں بازوؤں کے کٹنے پر گریہ کرنے کا ذکر دوسری بعض روایات میں بھی ذکر ہوا ہے۔

امام علیؑ نے اپنے بھائی عقیل سے درخواست کی تھی کہ ان کے لئے ایسی ہمسر تلاش کریں، جس سے بہادر اور دلیر بیٹے پیدا ہو جائیں تو عقیل جو کہ نسب شناس تھے، انہوں نے عباس کی ماں فاطمہ بنت حزام کو آپ کے لئے معرفی کیا تھا۔ منقول ہے کہ شب عاشورا جب زہیر بن قین کو پتہ چلا کہ شمر نے عباسؑ کو امان نامہ بھیجا ہے تو کہا: اے فرزند امیرالمومنینؑ، جب تمہارے والد نے شادی کرنا چاہی تو تمہارے چچا عقیل سے کہا کہ ان کے لئے ایسی خاتون تلاش کریں، جس کے حسب و نسب میں شجاعت و بہادری ہو، تاکہ ان سے دلیر اور بہادر بیٹا پیدا ہو، ایسا بیٹا جو کربلا میں حسینؑ کا مددگار بنے۔ اردوبادی کہتا ہے کہ زہیر اور عباس کی گفتگو کو اسرار الشہادۃ نامی کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا۔

حضرت عباسؑ کے لیے متعدد القاب ذکر ہوئے ہیں، ان میں سے بعض پرانے ہیں اور بعض جدید ہیں، جنہیں لوگوں نے آپ کی صفات اور فضیلتوں کی بنیاد پر آپ سے منسوب کیا ہے۔ آپ کے بعض القاب مندرجہ ذیل ہیں:
قمر بنی ہاشم: حضرت عباسؑ نہایت نورانی چہرہ کے مالک تھے، جو آپ کے کمال و جمال کی نشانیوں میں شمار ہوتا تھا، اسی بنا پر آپ کو قمر بنی ہاشم کا لقب دیا گیا تھا۔
باب الحوائج: حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے مشہور القاب میں سے ایک باب الحوائج ہے اور آپ کا یہ لقب آشنا ترین اور مشہور ترین القاب میں سے ہے۔ بہت سارے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ کہ اگر حضرت عباس سے متوسل ہو جائیں تو ان کی حاجت پوری ہوتی۔ ان کے علاوہ بھی لوگوں نے کئی القابات جناب عباس ؑ کی طرف نسبت دیئے ہیں، جو زبان زد عام و خواص ہیں۔

پروردگار نے فاطمہ کلابیہ کے بطن سے کہ جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے ام البنین کا خطاب عطا کیا تھا، چار بیٹے علیؑ کو عطا کر دیئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیا، لیکن عباسؑ ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے، کیونکہ خود حضرت علی ؑ نے ان کی ایک خاص نہج پر پرورش کی تھی۔ 14 سال تک باپ سے فضیلت و کمالات کے جوہر کسب کرتے رہے اور اس منزل پر پہنچ گئے کہ لوگ ثانی حیدر ؑ کہنے لگے۔ شجاعت و فن سپہ گری کے علاوہ معنوی کمالات میں بھی اعلیٰ مدارج طے کئے، زیادہ تر وقت دعا و مناجات اور عبادت میں صرف ہوتا۔ بچوں کی سرپرستی اور کمزورں اور لاچاروں کی خبر گیری حضرت عباسؑ کا خاص مشغلہ تھا۔ باپ کے بعد امام حسن ؑ کے مطیع و فرمانبردار رہے اور ان کے بعد امام حسین ؑ کے وفادار و علمبردار کہلائے۔

بعض نے حضرت عباس کی خصوصیات میں سے سب سے اہم خصوصیت امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو قرار دیا ہے۔ اسی لئے روایات میں آیا ہے کہ عباسؑ نے ان سے علم کا فیض حاصل کیا ہے۔ بعض معتقد ہیں کہ اگرچہ حضرت عباسؑ چہادہ معصوم کے درجے میں نہیں ہیں، لیکن آپ معصومین کے ساتھ سب سے زیادہ نزدیک شخص ہیں اور انسانیت میں معصومین کے بعد مرتبے کے لوگوں میں سے ہیں۔ عباسؑ کی زندگی کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے کبھی بھی اپنے آپ کو اپنے بھائی امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے برابر نہیں سمجھا اور ہمیشہ ان کو اپنا امام سمجھتے تھے اور خود ان کے مطیع اور فرماں بردار تھے اور ہمیشہ اپنے بھائیوں کو "یابن رسول اللہ” یا "یا سیدی” اور اس جیسے دیگر الفاظ کے ذریعے پکارتے تھے۔

کلباسی نے اپنی کتاب "خصائص العباسیہ” میں لکھا ہے کہ حضرت عباسؑ حَسین و خوبرو تھے اور اسی وجہ سے آپ کو قمر بنی ہاشم کہا جاتا تھا۔ تاریخی گزارشوں کے مطابق آپ بنی ہاشم کے خاص مردوں میں سے شمار ہوتے تھے اور آپ کا بدن مضبوط، لمبے قد کے تھے، اس حد تک کہ گھوڑے پر سوار ہوتے تو پاوں زمین تک پہنچ جاتے تھے۔ کلباسی کے مطابق ایک اور خصوصیت حضرت عباسؑ کی جس کی دوست اور دشمن سب نے تعریف کی ہے اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا ہے، وہ آپ کی شجاعت ہے۔ بعض نے حضرت عباسؑ کے جود و کرم کو بھی بیان کیا ہے، جو ہر عام خاص کے لیے پسند تھی اور اس صفت میں آپ لوگوں کے لئے نمونہ عمل بن گئے تھے۔
عباسؑ دست و بازوئے سلطان کربلا
روشن ہے جس سے شمع شبستان کربلا
جس کے لہو سے سرخ ہے دامانِ کربلا
جس کی وفا ہے آج بھی عنوان کربلا
حسن عمل سے جس نے سنوارا حیات کو
ٹھکرا دیا تھا پیاس میں جس نے فرات کو
٭٭٭٭٭تحریر: ارشاد حسین ناصر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button