تنہا ترین سردار۔۔ امام علی ابن ابی طالبؑ
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) تنہا ترین سردار۔۔ علی ابن ابی طالبؑ کی شہادت کی مناسبت سے ایک تحریر۔
کیا تم نے کبھی رات کی خاموشی کو محسوس کیا، اس کی پراسرار تاریکی اپنے اندر بہت سی کہانیاں چھپائے ہوئے ہوتی ہے۔ یہ کہانی اس رات کی ہے، جو باقی راتوں سے مختلف ہے، وہ رات جو ایک سردار کی تنہائیوں اور مناجاتوں کی امین ہے۔ رات کو اس سردار سے اتنی انسیت ہوگئی ہے کہ اب تو ہر روز اس سردار کے آنے سے پہلے یہ آس پاس کے باغات کے پھولوں کی خوشبو ادھار لے کر آبیٹھتی ہے۔
اس نے خود تو کبھی نہیں دیکھا، مگر ہوا سے سن رکھا تھا کہ یہ وہی سردار ہے کہ میدان جنگ میں ہوتا ہے تو دشمن اسے دیکھ کر لرزنے لگتے ہیں، یہ وہی سردار ہے کہ جس نے باب خیبر کو اپنے ہاتھوں سے اکھاڑا تھا۔ غرض ہر روز ہوا اس سردار کی دلیری کا کوئی نیا قصہ لے کر اسکے پاس آجاتی۔ رات کو سمجھ نہ آتی کہ ہوا کی باتوں پر یقین کرے یا اپنی آنکھوں پر، جنھوں نے اس سردار کو کبھی یتیموں کے ساتھ کھیلتے اور شفقت کرتے دیکھا ہے، تو کبھی تنہائی میں خدا کے حضور متغیر رنگ اور لرزتے وجود کے ساتھ مناجات کرتے۔
اس رات نے جب شہر کے سارے باسیوں کو سلا دیا تو دیکھا کہ یہ سردار تنہاء شہر سے باہر کی طرف بڑھ رہا ہے۔۔ رات بھی سردار کے پیچھے ہو لیتی ہے۔۔۔ رات کو سمجھ نہ آتی کہ آخر ہر رات یہ سردار شہر سے دور تنہاء کیوں نکل آتا اور پھر نجانے کون سا رنج اس کے سینے میں پنہاں ہے کہ اس کی خود کلامیاں رات کو سوگوار کر دیتی ہیں۔۔
دور تاریک اور وسیع صحرا میں سردار کو ایک کنویں میں منہ دے کر روتا دیکھ کر اور اس کی ایسی اندوہ ناک تنہائی دیکھ کر رات کا دل زخمی ہوگیا۔ مگر رات کو کیا معلوم کہ دن میں اتنے لوگوں کے درمیان میں یہ سردار خود کو زیادہ تنہاء محسوس کرتا ہے، شدید تنہا۔۔۔ کوئی اس کو سمجھنے والا اور اس کے معیار پر پورا اترنے والا موجود نہیں۔۔ رات کو کیا معلوم کہ سردار اس وقت اپنے آپ کو زیادہ تنہاء محسوس کرتا ہے، جب یہ لوگوں سے کہتا ہے کہ مجھ سے پوچھو، میں زمین کے راستوں سے زیادہ آسمان کے راستوں سے آگاہ ہوں اور لوگ تمسخر آمیز اور غیر عاقلانہ سوال کرتے ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں آسمان امامت کے دوسرے ستارے امام حسن مجتبیٰ (ع) کی زندگی پر ایک نظر
رات سے اس سردار کی اتنی غم انگیز سرگوشیاں اور سسکیاں برداشت نہ ہوسکیں اور اس نے دہائی دینا شروع کی کہ آخر کیوں اس مشکل کشاء کا کوئی ساتھی نہیں۔۔ کیوں کوئی اس کے سینے میں موجزن علم کا ادراک کرنے والا اور اسکا محرم راز نہیں۔۔ مگر نہیں۔۔ رات لمحے بھر کو ٹھہر گئی۔۔ رات کیسے بھول گئی وہ لمحہ، وہ کرب ناک منظر جب اس ظالم آگ کے شعلوں نے اس کی تاریکی کو جھلسا دیا تھا۔۔
جب اس سردار کی عزیز شریکِ حیات پر اس کے ہی سامنے جلتا در گرایا گیا تھا۔ رات ان شعلوں کو کیسے بھول سکتی ہے، جن کا عکس سردار کے ننھے ننھے بچوں کی آنکھوں میں ڈگمگاتے آنسوؤں سے نظر آرہا تھا۔ رات اس لمحے کو کیسے فراموش کرسکتی ہے، جب سردار اور اس کے معصوم بچوں کی سسکیوں نے رات کے سینے کو پارہ پارہ کر دیا تھا۔
اس کا دل چاہا تھا کہ ہوا سے کہے اپنے اندر طغیانی لے آئے، بادلوں سے کہے کہ طوفان لے آئیں۔ مگر وہ بے بسی کی زنجیروں میں جکڑی روتی رہی۔ ہاں۔۔ وہ کیسے بھول سکتی ہے، جب امت نے اس سردار کے حق کے ساتھ ساتھ اس کی محرم راز کو بھی اس سے چھین لیا۔ اب یہ سردار رات کی تنہاء وسعتوں میں کیونکر گریہ نہ کرے کہ جب لوگوں نے اس کے ساتھ بےوفائی کی۔۔
اس کا حق چھینا۔۔ اس کے علم اور مقام کی قدر نہ کی، جو اپنے سینے میں موجود ناسور کے درد کے باوجود لوگوں کو دین کی بلندیوں تک پہنچانا چاہتا ہے۔ آج رات کی فضا خوف اور سوگ سمیٹے تھی۔ ہوا نے کچھ سونگھ لیا تھا، بادلوں نے کچھ بھانپ لیا تھا۔۔ چرند پرند سہمے ہوئے تھے۔۔ رات کو سمجھ نہ آتی تھی کہ یہ بے چینی کیوں ہے۔ کچھ انہونی کے احساس میں دوڑی اور اس کھڑکی سے جھانکا، جس حجرے میں سردار اپنی دختر کے ساتھ افطار کر رہا تھا۔ سردار کو دیکھ کر اس کے دل میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔
مگر جب سردار مصلیٰ عبادت پر آیا تو آج کی عبادت و مناجات میں الگ سرور و اسرار تھا اور پھر سردار نے رات کے کانوں میں ایک سرگوشی کی، گویا اسے بشارت دی کہ آج ہی وہ رات ہے، جس کا رسول (ص) نے اس سردار سے وعدہ کیا تھا۔ اس طمانیت میں سوگ تھا یا کیا کہ رات کا دل بے چینی سے مچل گیا۔ ایک ہی لمحے میں ساری بات سمجھ میں آگئی اور شدتِ اضطراب سے رات کا رخ مزید تاریک ہوگیا۔
رات نے بہت ڈھونڈا، تلاش کیا اور بالآخر وہ سیاہ اور شقی چہرہ نظر آہی گیا، جسے دیکھنے کے لیے رات کو بھی چراغ کی ضرورت پڑی۔ اس ملعون کو زہر میں تلوار بھجاتے دیکھ کر رات کو ایسا لگا جیسے وہ اس تلوار سے اس کے سینے کو شگافتہ کر رہا ہے۔ رات بہت دوڑی، بہت تگ و دو کی کہ کیسے اپنے سردار کو بچائے، کس طرح وقت کو تھام لے۔۔ آخر ان چاند تاروں کو کہاں بھیجے کہ یہ کرۂ ارض اتنا تاریک ہو جائے کہ کوئی کچھ دیکھ نہ سکے۔
ہر جگہ سے تھک ہار کر رات ہانپتی کانپتی پھر اس سردار کے پاس آگئی۔ وہ اس نورانی چہرے کو دیکھتے رہنا چاہتی تھی۔ سردار جس طرف اپنا رخ پھیرتا، وہ اسی طرف کو ہو جاتی۔ وہ اس چہرے کی عادی ہوگئی تھی۔۔ ان کی مناجات سے مانوس ہوگئی تھی۔ بھلا وہ کیسے اس زندگی کا تصور کرے، جس میں اس کے سردار موجود نہ ہوں۔
اذان فجر کی دردناک آواز نے اس کی تاریکی میں ویرانیاں گھول دیں اور پھر۔۔ وہ وقت آگیا۔۔ رات نے اپنی آنکھیں بند کر لیں، لیکن ساتھ ہی اپنے سردار کے ٹوٹتے سانس کے درمیان ادا کیے گئے آخری الفاظ کو اپنی آغوش میں لے لیا، مگر ادھر سے ظالم دن نے ایک سنہری گرز رات کے سینے میں پیوست کر دیا اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے سنہری تیروں نے اسے چھلنی کر دیا۔ شور تھا، نوحہ اور بکا کی آوازیں تھیں، مگر اس کی دم توڑتی ویران آنکھیں اپنے سردار کے شگافتہ سر پر تھیں۔ نجانے پھر اس دن کے بعد سے وہ رات کہیں گم ہوگئی۔۔ آج بھی راتیں اس کو تلاش کرتی ہیں اور سوگوار رہتی ہیں۔
تحریر: کبیشہ فاطمہ