مشرق وسطی

خارجہ پالیسی، سعودی عرب، مصر، جامع ایٹمی معاہدے، پابندیوں اور ملک میں ہوئے بلووں کے حوالے سے صدر ایران کی اہم گفتگو

شیعہ نیوز:صدر ایران نے اپنی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر قومی ذرائع بلاغ کے ساتھ براہ راست گفتگو کی جس میں انہوں نے مختلف اہم قومی، علاقائی اور عالمی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

انہوں نے قائد انقلاب اسلامی کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دشمن نے گزشتہ مہینوں کے دوران ملک میں بلوے اور فسادات کو ہوا دے کر ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر وہ اس بات سے غافل تھا کہ ایرانِ اسلامی کوئی ننہا پودا نہیں بلکہ ایک تناور درخت ہے جسے اس قسم کے جھٹکوں سے ہلایا نہیں جا سکتا۔

سید ابراہیم رئیسی نے اسلامی، پڑوسی اور ہم فکر ممالک کے ساتھ تعلقات اور مشترکہ تعاون کو اپنی حکومت کی ترجیحی پالیسیوں میں قرار دیا اور کہا کہ ہم نے ہمیشہ یہ اعلان کیا ہے کہ ہم تمام دوست اور اپنے ہم فکر ممالک کے ساتھ تعلقات کا بھرپور خیرمقدم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایرانی قوم کے مفادات کو دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کی توسیع میں دیکھتے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ہماری حکومت کی نگاہ صرف دنیا کے چار خاص ممالک پر مرکوز نہیں رہی کہ اگر وہ مسکرائیں تو ہمیں خوشی ہو، ہم نے تمام ممالک کے ساتھ متوازن پالیسی کو اپنےایجنڈے میں رکھا ہے۔

صدر ایران نے شانگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی رکنیت تسلیم کر لئے جانے کو اپنی حکومت کی کامیابی گردانا اور اُسے اپنی متوازن اور مستحکم خارجہ پالیسی کا نتیجہ قرار دیا۔

سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ بہت سے اختلافات کے باوجود ہم نے کبھی اُسے اپنا دشمن نہیں سمجھا۔ انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ اختلافات کے دورِ عروج کے دوران رہبر انقلاب اسلامی کی اِس تاکید کی یاد دہانی کرائی کہ ہمیں کبھی اپنے اصلی دشمن یعنی امریکہ اور صیہونی حکومت سے غافل نہیں ہونا چاہیئے کہ جن کے گمراہ کرنے پر بعض ممالک ایران کے خلاف کچھ غلط قدم اٹھا لیتے ہیں۔ صدر رئیسی کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا اصلی دشمن کون ہے اور ہمیں صیہونی حکومت سے بھی غافل نہیں ہونا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ میں جب چین کے دورے پر گیا تو چین کے صدر نے مجھ سے کہا کہ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے اپنی آمادگی ظاہر کی ہے، آپ کی کیا رائے ہے اگر ہم ثالثی کریں؟ تو میں نے جواب دیا اس حوالے سے ہمیں کوئی مشکل نہیں ہے۔

مصر کے ساتھ تعلقات کے حوالے بھی صدرِ ایران نے کہا کہ سلطان عمان نے قائد انقلاب اسلامی کے ساتھ ہوئی حالیہ ملاقات کے دوران ایران کے ساتھ تعلقات کے لئے مصر کی خواہش کا اظہار کیا تھا جس پر قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا تھا کہ اس معاملے میں ہمیں کوئی مشکل نہیں ہے۔

سید ابراہیم رئیسی نے جامع ایٹمی معاہدے کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ ہمارے ملک کا تنہا معاملہ نہیں بلکہ بہت سے معاملات میں سے ایک ہے اور ہم نے کبھی ملکی مسائل و مشکلات کی اس معاملے سے گرہ بندی نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پابندیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ انکو غیر مؤثر بنانے کے لئے بھی کوشاں ہیں اور ملک کو اُس مقام پر پہنچ جانا چاہیئے کہ پابندیوں کا اُس پر کوئی اثر نہ ہو۔

پابندیوں کے دور میں تیل کی برآمدات کے حوالے سے صدر رئیسی ک کہنا تھا کہ ہم نے ثابت کر دکھایا ہے کہ پابندیوں کے باوجود تیل بیچا بھی جا سکتا ہے اور اُس کا پیسہ بھی لیا جا سکتا ہے۔

صدر ایران کا مزید کہنا تھا کہ پابندیوں کے خاتمے کے مقصد سے ہو رہے مذاکرات کے دیگر فریقوں نے یہ کوشش کی کہ اپنے وہ مطالبات جو مذاکرات کے ذریعے وہ حاصل نہیں کر سکے، انہیں وہ ہمارے ملک میں بلووں اور فسادات کو ہوا دے کر حاصل کریں مگر اب خود ہی ایسے پیغام ہمیں دیتے ہیں کہ جن سے انکی ندامت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ سید ابرایم رئیسی نے واضح کیا کہ ہم مذاکرات کے معاملے کی تمام تر عزت و سربلندی کے ساتھ پیروی کریں گے اور اس کے لئے ہم کسی سے التماس کرنے والے نہیں ہیں اور نہ ہی اپنے عاوم کی زندگی کو اُس سے جوڑیں گے۔

اس سوال کے جواب میں کہ اگر دو سال قبل آپ پلٹیں تو کیا آپ ماضی میں پیش آنے والے چیلنجوں اور مشکلات کو دیکھتے ہوئے پھر سے صدر بننے کا فیصلہ کریں گے، صدر رئیسی کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں پھر یہی فیصلہ کروں گا اور مجھے اپنے فیصلے پر کوئی پشیمانی نہیں ہے تاہم کبھی کبھی مشکلات ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی بنیاد پر ممکن ہے کہ انسان کے دماغ میں یہ خیال پیدا ہو کہ چھوڑا ان سے چھٹکارا پاؤ اور ایک گوشۂ عافیت میں بیٹھ جاؤ، مگر میں ایسا عافیت پسند آدمی نہیں ہوں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button