سائفر کیس: عمران خان، شاہ محمود قریشی کے جوڈیشل ریمانڈ میں 26 ستمبر تک توسیع
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے جوڈیشل ریمانڈ میں 26 ستمبر تک توسیع کردی۔
14 جوڈیشل ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم کے خلاف کیس کی سماعت اٹک جیل میں ہوئی جب کہ شاہ محمود قریشی کے خلاف مقدمے کی سماعت جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں کی گئی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے سابق وزیراعظم کے ریمانڈ سے متعلق درخواست پر اٹک جیل میں ان کیمرا سماعت کی۔
گزشتہ روز عمران خان کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد وزارت قانون کی جانب سے جاری ہونے والے نئے نوٹی فکیشن کے مطابق خصوصی عدالت کے جج نے استدعا کی تھی کہ ’سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر‘ سماعت اٹک جیل میں ہی کی جائے۔
اس کے علاوہ گزشتہ روز ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے سربراہ کے خلاف کیس اسلام آباد کی بجائے اٹک جیل میں چلانے کے خلاف درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
آج سماعت کے باعث اٹک جیل کے باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے 9 وکلا کو اٹک جیل کے اندر جانے کی اجازت دی گئی جب کہ کیس کی تحقیقات کرنے والی ایف آئی اے کی ٹیم بھی اٹک جیل پہنچی۔
وکلا کے مطابق سماعت کے آغاز میں چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری لگائی گئی اور پھر خصوصی عدالت کے جج نے ایف آئی اے کی درخواست منظور کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کے جوڈیشل ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع کرتے ہوئے انہیں 26 ستمبر تک جیل بھیج دیا۔
عمران خان کی وکلا ٹیم میں شامل نعیم حیدر پنچوتھا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ سائفر کیس میں عمران خان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 26 ستمبر تک توسیع کر دی گئی۔
بعد ازاں خصوصی عدالت نے عمران خان کو 26 ستمبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے اسی روز ایف آئی اے کو کیس کا چالان بھی پیش کرنے کی ہدایت کی۔
اپنی ایک اور پوسٹ میں نعیم حیدر پنچوتھا نے کہا کہ خصوصی عدالت کے جج کی طرف سے یقین دہائی کرائی گئی ہے کہ کل عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ کل جج صاحب کو دونوں طرف سے دلائل سن کر فیصلہ کرنا چاہیے۔
شاہ محمود قریشی کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع
بعد ازاں، 14جوڈیشل ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد شاہ محمود قریشی کو جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا، دوران پیشی شاہ محمود قریشی اور عدالتی عملے کے درمیان مکالمہ ہوا، عدالتی عملے نے شاہ محمود قریشی کو آگاہ کیا کہ جج صاحب سماعت کے لیے اٹک جیل گئے ہوئے ہیں، جج صاحب سے پوچھ لیتے ہیں اگر وہ کہتے ہیں تو آپ کو حاضری لگا کر واپس بھیج دیں گے۔
شاہ محمود قریشی نے عدالتی عملے سے استفسار کیا کہ جیل میں آج کیا ہے؟ میری ضمانت کے کیس کا کیا ہوا؟ عدالتی عملے نے کہا کہ جیل میں آج چیئرمین پی ٹی آئی کے کیس کی سماعت ہے، آپ کی ضمانت کی درخواست پر کل سماعت ہے، شاہ محمود قریشی نے عدالتی عملے سے استدعا کی کہ پلیز مجھے ٹھنڈا صاف پانی دے دیں۔
بعد ازاں خصوصی عدالت نے شاہ محمود قریشی کے جوڈیشل ریمانڈ میں بھی 26 ستمبر تک توسیع کردی۔
خصوصی عدالت میں پیشی کے موقع پر شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں بے قصور ہوں، سیاسی قیدی ہوں، اللہ مجھے صبر سے جبر برداشت کرنے کی ہمت دے، جج صاحب سے گزارش ہے انصاف میں دیر ہوسکتی ہے، اندھیر نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان تھے اور ہیں، کوئی ابہام نہیں، مجھے دعوت دی گئی، میں نے پاکستان کے لیے ایک نقطہ نظر پیش کیا، ملک اس وقت معاشی، آئینی، اور سیاسی بحران سے دوچار ہے، بحران سے نکالنے کا واحد راستہ شفاف انتخابات ہیں۔
وائس چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں اپنی ذاتی انا سے بالاتر ہو کر پاکستان کا سوچنا ہوگا، پاکستان مشکل میں ہے، ہم سب کو اپنے مؤقف، حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا ہوگی تاکہ پاکستان کے مفادات کو ٹھیس نہ پہنچے۔
واضح رہے کہ سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی، سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر اس کیس میں ضمانت پر ہیں۔
29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم کو 30 اگست تک جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دیتے ہوئے اگلے روز عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی جہاں ان کا 13 ستمبر تک 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کرلیا گیا تھا۔
19 اگست کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا تھا اور انہیں سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں نامزد کردیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ رواں ماہ ایف آئی اے نے چیئرمین پی ٹی آئی، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، رہنما اسد عمر کو سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں نامزد کرتے ہوئے 19 اگست کو شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا تھا، سابق وزیر خارجہ تاحال اس کیس میں جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کی مدعیت میں درج کی گئی تھی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا اور بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے امریکی ویب سائٹ انٹرسیپٹ نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ دستاویز اس سے موصول ہوئی ہے اور اس سے شائع بھی کیا گیا تھا جبکہ سابق وزیراعظم نے ان کی حکومت کے خاتمے سے چند روز قبل ہی اس دستاویز کو عوامی اجتماع میں لہرایا تھا۔
ایف آئی اے میں درج ایف آئی آر میں عمران خان، شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا ہے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیرقانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔
ایف آئی اے اس وقت اٹک جیل میں قید چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے سفارتی سائفر کی گمشدگی پر تحقیقات کر رہی ہے، جس کو انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے ’بیرونی سازش‘ کے طور پر پیش کیا تھا۔