امریکہ کے بحری بیڑے اور اڈے مقاومت کے نشانے پر ہیں، سید حسن نصر الله
شیعہ نیوز: لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله” کے سیکرٹری جنرل "سید حسن نصر الله” نے آج سہ پہر مقبوضہ فلسطین میں پیش آنے والی صورت حال کے حوالے سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب کے آغاز میں سید حسن نصر الله نے ان تمام افراد کا شکریہ ادا کیا جو ایک بڑی تعداد میں امین لبنان کی تقریر سننے کے لئے بیروت میں جمع ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کی مقاومت اسلامی کو اپنے شہداء پر فخر ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے ابتدائی حصے میں شہداء کے لواحقین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو مبارک دیتا ہوں کہ آپ کے عزیزوں کو شہادت جیسی مقدس سعادت حاصل ہوئی۔ انہوں طوفان الاقصیٰ کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت شہید ہونے والے تمام افراد سے تعزیت کی۔ انہوں نے کہا کہ شہید زندہ ہیں اور وہ ہمیں بشارت دے رہے ہیں۔ اگر ہم انسانی، اخلاقی اور مذہبی لحاظ سے مکمل قانونی جنگ کے متلاشی ہیں تو ہمیں ان غاصب صہیونیوں کے ساتھ ہونے والی اس جنگ جیسی محاذ آرائی دوبارہ نظر نہیں آئے گی۔ اس جنگ میں کوئی ابہام نہیں ہے اور یہ خدا کی راہ میں لڑنے کی واضح مثالوں میں سے ایک ہے۔
سید حسن نصر الله نے کہا کہ اسلحے سے پہلے ہمارے پاس ایمان کی طاقت، بصیرت، معاملہ فہمی، اپنے ہدف سے لگاو اور بے پناہ صبر ہونا چاہئے جس کی واضح مثال شہداء کے لواحقین ہیں۔ اس برگزیدہ قوم پر ہمارا سلام جس کی دنیا میں کم ہی مثال ملتی ہے۔ غزہ اور مغربی کنارے کے لوگوں کی عظمت، استقامت اور بہادری کی تعریف سے زبانیں قاصر ہیں۔ ہم عربی و اسلامی دنیا سمیت لاطینی امریکہ کے ممالک الغرض دنیا کے تمام افراد کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت کی، بالخصوص عراقیوں اور یمنیوں کے شکرگزار ہیں کہ جو اس مبارک جنگ میں شریک ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام 75 سالوں سے درد و غم کو سہہ رہی ہے۔ مسئلہ فلسطین کوئی نیا یا چھپا ہوا مسئلہ نہیں ہے۔ سیدِ مقاومت نے کہا کہ گزشتہ سال اس نئی احمق، وحشی اور جنونی صیہونی کابینہ کے آتے ساتھ ہی فلسطین کے حالات بہت پیچیدہ ہو گئے تھے۔ اس انتہاء پسند کابینہ نے فلسطینی قیدیوں کی اذیتیوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ جس سے انسانی بحران پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ تقریباََ 20 سالوں سے دو ملین انسان غزہ کی پٹی میں سخت ترین شرائط کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور کسی نے بھی ان کی مدد نہیں کی۔
حزب الله کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ دشمن کی جانب سے گستاخیوں، شکنجوں اور سرحدی خلاف ورزیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس وجہ سے ایک بڑا واقعہ رونما ہونا تھا جو اس غاصب و متکبر رژیم اور لندن و واشنگٹن میں بیٹھے اس کے حامیوں کو ہلا کر رکھ دے۔ نئی صیہونی کالونیوں کی تعمیر کے منصوبے سے مغربی کنارے میں فلسطینی وجود پر خطرے کے بادل منڈلانے لگے۔ امینِ لبنان نے کہا کہ آپریشن طوفان الاقصیٰ کا فیصلہ سو فیصد فلسطینی مقاومت کا فیصلہ تھا۔ یہ اتنا مخفی منصوبہ تھا کہ غزہ میں موجود دیگر مقاومتی حلقے بھی اس حملے سے بے خبر تھے۔ اس آپریشن کی کامیابی کی وجہ ہی اس کا انتہائی مخفی ہونا تھا۔ اس آپریشن کو چھپانے سے کسی مقاومتی تحریک کو شکایت نہیں ہوئی بلکہ سب نے اس آپریشن کی تعریف کی۔ کسی بھی مقاومتی گروہ کے فیصلوں پر طوفان الاقصیٰ کی وجہ سے منفی اثر نہیں پڑا۔ حماس کے بھائیوں کے اس اقدام نے جنگ اور اس کے اہداف کی اصلی شناخت کو ثابت کیا۔ نیز خطے کی مقاومتی فورسز کے درمیان تفرقہ کے حوالے سے دشمن کے جعلی پرپیگینڈے کو بے نقاب کیا۔
سید حسن نصر الله نے کہا کہ آپریشن طوفان الاقصیٰ کے مکمل مخفی ہونے نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ یہ آپریشن مکمل طور پر فلسطینی عوام کا فیصلہ تھا اور اس حملے کا علاقائی و بین الاقوامی مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ایران، مقاومتی فورسز کو کنٹرول نہیں کرتا بلکہ مزاحمتی محاذ اپنے فیصلوں میں آزاد ہے۔ اس آپریشن نے صیہونی رژیم میں سیاسی، نفسیاتی، حفاظتی اور روحانی سطح پر زلزلہ برپا کر دیا ہے۔ اس آپریشن سے صیہونی رژیم پر گہری اسٹریٹجک ضربیں لگی ہیں جس کے نتائج آنے والے زمانے تک ہوں گے۔ اس حملے کے بعد صیہونی دشمن نے گزشتہ ماہ جو کچھ بھی کیا اور آئندہ آنے والے وقت میں جو بھی قدم اٹھائے اسے اسٹریٹجک طور پر کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ طوفان الاقصیٰ نے صیہونی رژیم کی طاقت کو پاش پاش کر دیا اور یہ ثابت کیا کہ اس رژیم کا وجود مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔ امریکی حکومت، صدر، وزیر اور استکبار کے جرنیل اسرائیل کو بچانے کے لئے پل پڑے۔ ان سب لوگوں نے گرنے والی اور زلزلہ زدہ رژیم کو ایک حد تک اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کے کوشش کی لیکن ابھی تک کسی بھی ٹھوس اقدام کو انجام دینے سے عاجز ہیں۔
حزب الله کے سربراہ نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو آغوش میں بھرنے کی جلدی سے اس رژیم کی کمزوری اور سستی آشکار ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ خود سوچیں کہ امریکی جنرل تل ابیب آئیں، اپنے اسلحے کے ذخائر کے منہ کھول دیں اور جنگ کے پہلے روز ہی 10 بلین ڈالر کی امداد کا مطالبہ کریں، کیا یہ رژیم طاقتور ہے؟ اور کیا یہ رژیم اپنے پاوں پر کھڑی ہو سکتی ہے؟۔ ان نتائج کو بیان کیا جانا چاہئے تا کہ سب جان لیں کہ غزہ و مغربی کنارے اور دیگر مظلوم لوگوں کی فداکاری قابل ستائش ہے۔ ان حاصل شدہ نتائج نے خطے کے ممالک کے لئے نئے تاریخی مرحلے کی راہ ہموار کی۔ لہٰذا آپریشن طوفان الاقصیٰ کا فیصلہ درست، عقلمندانہ اور مطلوب تھا۔ سیدِ مقاومت نے کہا کہ جنگ کے پہلے مرحلے میں پتا چل گیا تھا کہ دشمن بوکھلا چکا ہے۔ غزہ کے خلاف دشمن کی ہولناکیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی کابینہ نے ابھی تک ماضی سے سبق نہیں لیا۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے قبل ازیں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ 2006ء میں لبنان اور غزہ میں رونماء ہو چکا ہے لیکن تقریباََ اجمالی طور پر منظر نامہ ایک جیسا ہی تھا۔
امینِ لبنان نے کہا کہ اسرائیلی پہلے بھی اور آج بھی جس غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں وہ درست ہدف کا تعین ہے کہ جس سے صیہونی قاصر ہیں۔ 2006ء میں بھی اسرائیل کا ہدف مقاومت لبنان کو نابود کرنا اور اپنے دو صیہونی قیدیوں کو بغیر مذاکرات کے رہائی دلوانا تھا۔ 33 دن کے بعد انہیں اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی، دلچسپ بات یہ ہے کہ آج غزہ میں یہی مسئلہ تکرار ہو رہا ہے۔ اسرائیل، غزہ میں عام عوام، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنا رہا ہے۔ غزہ کے تمام علاقوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب ہم نے اپنی آنکھوں سے غزہ کی مقاومتی فورسز کی بہادری کا مشاہدہ کیا۔ ہم نے دیکھا کہ ایک مجاہد ٹینک کے نیچے جا کر بم رکھتا ہے، دشمن کیسے اس جذبے کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ غزہ سے ہر گھنٹے اور ہر روز جو مناظر میڈیا پر دکھائے جا رہے ہیں، ملبے سے نکلنے والے افراد مقاومت کو مدد کے لئے پکارتے ہیں اور یہ پیغام دیتے ہیں کہ قتل و غارت گری سے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ میڈیا کے ذریعے عالمی حمایت کے متلاشی دشمن کے چہرے سے غزہ میں شہید ہونے والے بچوں اور خواتین نے نقاب اتار دی ہے۔ جو کچھ بھی غزہ میں ہو رہا ہے اس کی ڈائریکٹ ذمے داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔
حزب الله کے سربراہ نے کہا کہ غزہ کے واقعات نے دشمن کی جنونیت کو آشکار کیا ہے۔ غزہ میں جارحیت کی تصاویر صیہونیوں سے کہہ رہی ہیں کہ اس جنگ کا اختتام غزہ کی جیت اور تمہاری شکست پر ہو گا۔ امریکہ غزہ کی جنگ کا ذمے دار ہے اور اسرائیل اس کا آلہ کار۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ یہ جارحیت بند ہو۔ امریکہ جنگ بندی کو بھی مسترد کرتا ہے۔ امریکہ غزہ میں ہونے والی جنگ کی باقاعدہ نگرانی کر رہا ہے اسی وجہ سے عراق کی مقاومت نے عراق و شام میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ انتہائی شجاعانہ اور دانشمندانہ ہے۔ سید حسن نصر الله نے کہا کہ دنیا کے ہر معزز اور حریت پسند انسان کا فریضہ ہے کہ جو حقائق بیان کئے جا رہے ہیں ان کی تشریح کرے اور دوسروں کے لئے بیان کرے۔ سب لوگوں کو اپنی ذمے داری کا احساس کرنا چاہئے۔ 1948ء میں جب دنیا نے فلسطین کو تنہا چھوڑ دیا تو یہ غاصب رژیم وجود میں آئی۔ جس کے نتیجے میں علاقے کے ممالک بالخصوص لبنان کے عوام کو اس رژیم کے ساتھ نبرد آزما ہونا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصیٰ کے بعد کا مرحلہ پہلے جیسا نہیں ہو گا۔ ہمیں دو اہداف کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے۔ ایک جارحیت کے خاتمے اور دوسری غزہ میں حماس کی فتح کی۔
سید حسن نصر الله نے کہا کہ غزہ کی کامیابی کا مطلب فلسطین، قدس، فلسطینی مسیحیوں، خطے کی اقوام اور ہمسایہ ممالک کی فتح ہے۔ غزہ کی فتح مصر، اردن، شام اور بالخصوص لبنان کے فائدے میں ہے۔ آپ کو غزہ میں صیہونی جارحیت روکنے کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے۔ صرف مذمت کافی نہیں بلکہ اسرائیل سے تعلقات ختم کریں اپنے سفیروں کو واپس بلائیں۔ قبل ازیں میں نے آپ سے امریکہ کو تیل کی سپلائی منقطع کرنے کا مطالبہ کیا تھا آج آپ سے کہتا ہوں کہ اسرائیل کو بھی تیل برآمد کرنا بند کردو۔ کیا آپ میں اتنی بھی طاقت نہیں کہ آپ رفح کراسنگ کھول سکیں۔ خطرات کے باوجود یمنی عوام نے کچھ اقدامات انجام دئیے اور متعدد ڈرونز و میزائل مقبوضہ سرزمین کی جانب روانہ کئے حالانکہ وہ ہدف تک نہ پہنچ سکے لیکن انشاالله ایک دن یہ میزائل اور ڈرونز جنوبی فلسطین میں اسرائیل کی چھاونیوں اور ایلات تک پہنچیں گے۔ حزب الله کے سربراہ نے کہا کہ ہم جنگ میں داخل ہو چکے ہیں، ہمارے سامنے جو کچھ ہو رہا ہے وہ اہم اور اثر انگیز ہے۔ لبنان کے محاذ پر ہونے والے واقعات کی اس رژیم میں کہیں تاریخ نہیں ملتی۔ مقاومت لبنان ایک ایسی نئی جنگ میں داخل ہو چکی ہے جسے صرف سرحدی علاقوں پر موجود افراد سمجھ سکتے ہیں۔
قائد مقاومت نے کہا کہ یہ ایک مختلف محاذ ہے۔ لبنانی فرنٹ نے بڑی حکمت عملی سے دشمن کی فوج کے ایک بڑے حصے کو اپنے ساتھ مشغول کر دیا ہے جو غزہ پر جارحیت میں مصروف تھے۔ اگر ہمارا مقصد صرف یکجہتی اور دکھاوا ہوتا تو اسرائیل شمالی سرحد سے مطمئن ہوتا اور اپنی فورسز کو غزہ میں بھیجتا۔ لبنان سے متصل شمالی سرحد پر آنے والی صیہونی فورسز میں پیدل دستے، جب کہ بحیرہ احمر میں لبنانی ساحل اور حیفا بندرگاہ کے قریب نصف اسرائیلی نیوی تعینات ہے۔ صیہونی فضائیہ کا ایک چوتھائی حصہ بھی شمالی محاذ کی نگرانی میں مصروف ہے اور نصف کے قریب ہی ڈیفنس ٹیکنالوجی لبنان کی جانب نصب کر دی گئی ہے۔ نیز ہزاروں صیہونی آباد کار جھڑپوں کے آغاز سے ہی اپنے گھروں سے فرار ہو چکے ہیں۔ بارڈر پر مقاومت کی کارروائیوں نے صیہونیوں کے ساتھ ساتھ امریکیوں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ دشمن شمالی محاذ پر اپنے اقدامات کو تیز اور جنگ کو وسیع کرنے کے لئے سوچ رہا ہے۔ یہ ایک حقیقی امکان ہے اور قابل عمل ہے۔ دشمن کو اس کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ سرحدوں پر موجودگی اور روزانہ کی کارروائیاں دشمن کو بارڈر پر رہنے کے لئے روکتی ہیں۔
حزب الله کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ جنوب میں دشمن پر مقاومت کی کارروائیں صیہونیوں کو یہ بات باور کرواتی ہیں کہ انہوں نے تاریخی حماقت کی ہے۔ پہلے دن سے ہمیں بتایا گیا کہ اگر آپ جنوب میں محاذ بنائیں گے تو امریکی طیارے آپ کو نشانہ بنائیں گے۔ لیکن ان دھمکیوں سے ہماری پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور ہم نے اس محاذ پر کارروائی شروع کر دی۔ اس محاذ پر اقدامات کی شدت اور وسعت کا انحصار دو بنیادی امور پر ہے۔ اول غزہ کی صورتحال اور دوم لبنان پر صہیونی دشمن کا رویہ۔ میں صہیونی دشمن کو سرحدوں کی خلاف ورزی اور لبنانی شہریوں پر حملہ کرنے سے خبردار کرتا ہوں۔ اس طرح کے اقدامات سے شہری شہری توزان برقرار رہے گا۔ میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ لبنانی محاذ پر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہمیں ہر قسم کی صورت حال کے لئے آمادہ رہنا چاہئے۔ سید حسن نصر الله نے امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بحیرہ احمر میں تمہارے بحری بیڑے نہ تو پہلے ہمیں ڈرا سکے نہ ہی اب کچھ کر سکیں گے۔ ہم نے تمہارے ان بیڑوں کے لئے بھی اسلحہ تیار کر لیا ہے۔ جنہوں نے تمہیں اسی کی دہائی میں شکست دی تھی وہ ابھی زندہ ہیں اور اب اُن کے ساتھ اُن کے بچے اور نواسے بھی ہیں۔
جو لوگ بھی امریکی جنگ روکنا چاہتے ہیں وہ غزہ پر جارحیت بند کر دیں۔ اگر ایک علاقائی جنگ چھڑ گئی تو پھر یہ تمہارے بحری ییڑے اور فضائی طاقت کچھ نہیں کر سکے گی۔ اس جنگ کے آغاز کی صورت میں تمہارے فوجیوں کی قربانی ہو گی اور علاقے کا فائدہ ہو گا۔ نیز تم اس جنگ میں شکست کھاو گے۔ اپنے خطاب کے آخر میں امینِ لبنان نے علاقائی مقاومتی فورسز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ہمیں کچھ وقت کی ضرورت ہے لیکن آہستہ آہستہ ہم کامیابی کے قریب ہوں گے۔ 2006ء اور غزہ میں ہم ایسے ہی کامیاب ہوئے تھے۔ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے لبنان کی جنگ کے دوران ہمیں کامیابی کی نوید سنائی تھی اور نتیجتاََ ہم کامیاب ہوئے۔ انہوں نے غزہ کے بارے میں بھی اسی یقین کے ساتھ کہا کہ غزہ اور فلسطین حتماََ کامیاب ہوں گے۔ ہاں غزہ جیتے گا اور فلسطین بھی کامیاب ہو گا، ہم عنقریب فتح کا جشن منائیں گے۔