انسانی حقوق کا دعویٰ کرنیوالا امریکہ غزہ کے عوام کے قتل عام میں ملوث ہے، علی اکبر صالحی
شیعہ نیوز: اسلامی جمہوریہ ایران کے خبر رساں ادارے فارس نیوز کے مطابق ایران کے سابق وزیر خارجہ "علی اکبر صالحی” نے منگل کی شام اپنے ایک بیان میں صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ میں غزہ کے عوام کی استقامت کی طرف اشارہ کیا۔ الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ میں فلسطینی اپنا سب کچھ کھونے کے باوجود ثابت قدم ہیں۔ اس انٹرویو میں صالحی نے مسئلہ فلسطین کی حقیقتوں کی عکاسی کرنے میں الجزیرہ کے کردار کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ایران کے سابق وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ امریکہ جو کہ انسانی حقوق کی پاسداری کا دعویٰ کرتا ہے، غزہ کے لوگوں کے قتل عام میں ملوث ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے خلاف امریکی دھمکیوں کا سلسلہ 40 سال سے زیادہ سے جاری ہے اور جو کچھ کرنا چاہتا ہے، وہ زیادہ بولتا نہیں ہے۔ صالحی نے مزید کہا کہ ایران اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہم خطے میں تنازعات کو بھڑکانے کے خلاف خبردار کرتے ہیں۔
ایران کے سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا اور وہ اسرائیلی سوچ سے زیادہ ہوشیار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خطے میں مزاحمت کے دفاع کے حوالے سے ہمارا موقف بالکل واضح ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ صالحی نے زور دے کر کہا کہ آج کی مزاحمت نے اپنے دفاع کی صلاحیت کو بڑھا لیا ہے۔ ایران کے سابق وزیر خارجہ نے جنوبی لبنان کے تنازعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ جنگ کے آغاز سے اب تک 60 شہید دے چکی ہے اور ایک تہائی صہیونی فوج شمالی محاذ پر مصروف ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر تاکید کی کہ ایران مختلف شعبوں میں مزاحمت کی مدد کرتا ہے، لیکن اپنے فیصلے مزاحمت خود ہی کرتی ہے۔ صالحی نے کہا کہ ہم مزاحمت اور مسئلہ فلسطین کی حمایت جاری رکھیں گے اور یہ ہماری پالیسی اور اعتقاد کا حصہ ہے۔
ایران کے سابق وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ہم شام کی حکومت کی درخواست پر اس ملک میں موجود تھے اور وہاں ہمارا مشن بطور مشیر شروع ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب سے اقوام نے مزاحمت کی ذمہ داری لی ہے، جنگوں میں اسرائیل کی شکست کا آغاز ہوگیا ہے۔ علی اکبر صالحی نے جو ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ ایران پر دباؤ ڈالنے والی بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے غزہ پر جوہری حملے کی دھمکی کے حوالے سے اسرائیلی وزیر کے بیانات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ ایران کے سابق وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ غزہ پر اسرائیل کے حملوں نے دنیا کے دوہرے معیار اور دوہرے چہروں کو آشکار کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی برادری نے اسرائیل کو اپنے حملے جاری رکھنے کے لیے مناسب شرائط فراہم کی ہیں اور اب ہم سے مداخلت نہ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
7 اکتوبر کو فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے فلسطین پر سات دہائیوں سے زائد کے قبضے، غزہ کے تقریباً دو عشروں سے جاری محاصرے اور ہزاروں فلسطینیوں کی قید و بند اور اذیتوں کے جواب میں "طوفان الاقصیٰ” کے نام سے آپریشن شروع کیا۔ یہ آپریشن اس حکومت کے خلاف مہلک ترین حملوں میں سے ایک تھا۔ حماس کے جنگجوؤں نے سرحدی باڑ کے کئی مقامات سے مقبوضہ علاقوں میں گھس کر دیہاتوں پر حملے کیے اور بڑی تعداد میں اسرائیلیوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ ان میں سے متعدد کو گرفتار کر لیا۔ اس کارروائی کے جواب میں صیہونی حکومت نے غزہ پر شدید حملے کیے ہیں اور اس علاقے کو مکمل محاصرے میں لے رکھا ہے۔ صیہونی حکومت کے حملوں میں گیارہ ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔