شہید موسوی کا قتل، غزہ میں صیہونی حکومت کی سخت شکست کی وجہ سے کیا گيا، ہم بدلہ لے کر رہيں گے ، جنرل شریف
شیعہ نیوز: پاسداران انقلاب اسلامی کے ترجمان جنرل شریف نے شام میں جنرل سید رضی کے قتل کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ دہشت گردانہ حملہ غزہ میں صیہونی حکومت کی ناکامی کی وجہ سے کیا گيا تھا۔
جنرل رمضان شریف نے بدھ کے روز ایک پریس کانفرنس میں شام میں صیہونی حکومت کے حملے میں پاسداران انقلاب اسلامی کے شام میں فوجی مشیر جنرل سید رضی موسوی کی شہادت کے بارے میں کہا کہ شہید رضی موسوی، دہشت گردی خاص طور پر داعش کے خلاف جنگ میں خاص رول کے حامی تھے اور مزاحمتی فرنٹ کے تمام مجاہد ان کی خدمات سے بخوبی واقف ہيں۔
یہ بھی پڑھیں : صیہونی جرائم کا دوام قبضہ ختم کرنے لئے عوام کے عزم کو محکم تر کررہا ہے، حماس
شام میں جنرل سید رضی کے قتل کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ دہشت گردانہ حملہ غزہ میں صیہونی حکومت کی ناکامی کی وجہ سے کیا گيا تھا، صیہونیوں نے اپنے مسائل سے نجات کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے اور آئي آر جی سی اس قتل کی وجہ یہی سمجھتی ہے۔
جنرل شریف نے کہا کہ الاقصی طوفان آپریشن، جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا مزاحمتی فرنٹ کی طرف سے ایک انتقام بھی تھا۔ صیہونیوں نے الاقصی طوفان میں اپنے 200 سے زائد کمانڈروں اور 1500 سے زائد فوجیوں کو گنوا دیا ہے اور یہ تعداد نا قابل شکست ہونے کا دعوی کرنے والی صیہونی حکومت کے لئے بہت بڑی ہے جو در اصل اس کے زوال کی علامت ہے۔
آئی آر جی سی کے ترجمان نے مزید کہا کہ جنرل رضی موسوی نے 25 برسوں تک لبنان و شام میں ایک ماہر فوجی مشیر کے طور پر اور مزاحمت فرنٹ کے استحکام میں اہم رول کے حامل رہے ہيں۔
انہوں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ شہید رضی موسوی کا انتقام کب لیا جائے گا، کہا کہ انتقام، صیہونی حکومت کے خلاف فوری کارروائي نہيں ہے ۔ جب صیہونیوں نے تہران میں ہمارے سائنس دانوں کو قتل کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا ۔ جب شہید سلیمانی کو قتل کیا گيا تو اس کا انتقام بھی امریکیوں سے لیا گیا۔ دیگر امور میں بھی ہم بدلہ لیتے ہیں لیکن چونکہ میڈیا پر صیہونیوں کا قبضہ ہے اس لئے اس کی خبریں منظر عام پر نہيں آتیں۔ آج غزہ کی جنگ کو تقریبا 80 دن گزر رہے ہيں لیکن آپ لوگوں نے ہلاک ہونے والے کتنے صیہونی کمانڈروں کے نام سنے ہيں؟ پاسداران انقلاب اسلامی صیہونیوں سے ضرور انتقام لے گی لیکن اس کا طریقہ ایسا ہوگا جس سے انہیں چوٹ تو پہنچے گي لیکن اسے وہ نفسیاتی اور تشہیراتی پروپگنڈے کے لئے استعمال نہيں کر پائيں گے۔
آئی آر جی سی کے ترجمان نے کہا کہ صیہونیوں کی ضرورت کی 80 فیصد سے زائد اشیاء سمندر کے راستے ان تک پہنچتی ہيں اور یمینوں نے اسرائيل کے محاصرے کے لئے بہترین راستہ اختیار کیا ہے اور یمنیوں نے باضابطہ طور پر اعلان کیا ہے کہ حملے صرف انہیں بحری جہازوں پر کئے جائيں گے جو اسرائيل جا رہے ہوں گے یا اسرائيل کی ملکیت میں ہوں گے اس لئے بحری راستوں کو غیر محفوظ بنانا ہرگز مقصد نہيں ہے ۔
انہوں نے غزہ میں جنگ بندی کے امکانات پر پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یقینی طور پر آخری راہ حل یہی ہوگي کیونکہ گزشتہ روز صیہونیوں کے وہم زدہ وزیر اعظم نے ایک دن پہلے پھر وہی شروعاتی دنوں کی باتیں دوہرائيں اور کہا کہ ہم فلسطینیوں کو بے گھر اور غزہ کو حماس کے وجود سے پاک کرنا چاہتے ہيں اور اسے پوری طرح سے غیر فوجی علاقہ بنانا چاہتے ہيں، ہم حماس کے رہنماؤں کو قتل کریں گے اور اپنے یرغمالیوں کو رہا کریں گے، یہ وہی 4 مقصد ہیں جن کی تکمیل میں 80 دنوں کے بعد بھی ذرہ برابر کامیابی نہيں ملی ہے۔ جنگ بندی کے بعد الاقصی طوفان کا پہلا اثر صیہونیوں کی موجودہ حکومت کا خاتمہ ہوگا اور یہ جو امریکی اور صیہونی جنگ بندی کی مخالفت کر رہے ہيں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔