مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

امریکہ اور صیہونزم کی نظر میں جمہوریت کا تصور

تحریر: ہادی محمدی

غزہ میں گذشتہ چند ماہ سے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور روزانہ دسیوں بیگناہ فلسطینی بچوں اور خواتین کا قتل عام جاری ہے۔ ان چند ماہ میں غزہ میں انجام پانے والے انسان سوز مظالم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جنگی جرائم اور نسل کشی پر مبنی اقدامات نے انسانی تاریخ میں نئے ریکارڈ قائم کر دیے ہیں۔ دوسری طرف خود کو عالمی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کا چیمپئن اور علمبردار کہنے والے مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ اس ہولناک نسل کشی پر نہ صرف مجرمانہ خاموشی اختیار کئے بیٹھے ہیں بلکہ ہر لحاظ سے یعنی سیاسی، فوجی، اقتصادی، سفارتی اور قانونی طور پر اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ امریکہ اب تک اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پیش کردہ کئی جنگ بندی کی قراردادیں ویٹو کر چکا ہے۔

غزہ میں جاری جنگ نے مغربی سامراجی طاقتوں اور غاصب صیہونی رژیم کے مفادات کو داو پر لگا دیا ہے۔ مغربی طاقتوں کی حمایت یافتہ غاصب صیہونی رژیم غزہ میں جس قدر انسان سوز مظالم جاری رکھے ہوئے ہے اس کے باعث عالمی سطح پر مغربی جمہوریت اور تہذیب و تمدن کی عزت مٹی میں ملتی جا رہی ہے۔ اس وقت عالمی سامراج کیلئے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ کہیں مظلوم فلسطینی قوم اپنے عزم راسخ اور بے مثال استقامت کی بدولت غاصب صیہونی رژیم کی وحشیانہ بربریت اور انتہا درجہ سفاکیت کے باوجود فتح یاب نہ جائے۔ کیونکہ ایسی صورت میں یہ خطہ صیہونی رژیم نامی سرطانی غدے سے پاک ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں خطے میں امریکہ اور دیگر مغربی سامراجی طاقتوں کے تمام مفادات ملیا میٹ ہو جائیں گے۔ لہذا واشنگٹن غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور مدد جاری رکھے ہوئے ہے اور حتی مستقبل میں بھی مظلوم فلسطینیوں کے جمہوری کردار کا قائل نہیں ہے۔

صیہونزم اور امریکہ جمہوریت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ ان کی نظر میں جمہوریت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایک معاشرے کی اکثریت عوام کیا چاہتی ہے اور اپنے حکومتی نظام کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے۔ امریکہ اور صیہونزم کی نظر میں حتی پورے فلسطین میں ایسا رفرنڈم قابل قبول نہیں ہے جس میں اس سرزمین سے تعلق رکھنے والے تمام افراد حصہ لے چکے ہوں۔ ان کی نظر میں فلسطین کی سرزمین پر یورپ کے سامراجی ممالک اور امریکہ کا حمایت یافتہ نسل پرستانہ اور آمرانہ حکومتی نظام ہی حق حکومت رکھتا ہے۔ آج امریکہ اور اسرائیل کو درپیش سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح غزہ جنگ کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور جنگ کے بعد غزہ میں کس قسم کا حکومتی نظام نافذ کیا جائے؟ انہیں درپیش ایک اور بڑا چیلنج ان کے حمایت یافتہ عرب کٹھ پتلی حکمرانوں کی عدم مقبولیت ہے۔

ان کی ناجائز سوچ کا نتیجہ ایک ایسی کمزور فلسطینی ریاست کی صورت میں ظاہر ہو گا جو مکمل طور پر صیہونی حکمرانوں کی تابعدار، ہم فکر اور کٹھ پتلی ہو۔ البتہ صیہونی حکمران تاریخ میں کبھی بھی مقبوضہ فلسطین میں ایک ساتھ دو ریاستوں، فلسطینی اور اسرائیلی، کے قائل نہیں رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ سے مقبوضہ سرزمین سے تمام فلسطینیوں کے انخلاء پر زور دیتے آئے ہیں۔ البتہ اس بات کا بھی خیال رہے کہ مقبوضہ سرزمین سے تمام فلسطینیوں کا انخلاء بھی صیہونی پراجیکٹ کا نقطہ اختتام نہیں ہو گا بلکہ وہ اس کے بعد فلسطینیوں کو دنیا کے مختلف ممالک میں تقسیم کر کے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتے ہیں تاکہ فلسطینی قوم کا وجود ہی باقی نہ رہے۔ یعنی اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور اس کی حامی مغربی طاقتیں خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ جمہوریت، جمہوری اقدار، عالمی برادری کی مرضی، فلسطینیوں کے حق خود ارادیت اور بین الاقوامی اداروں کے فیصلوں کے مدقابل کھڑے ہیں۔

غزہ میں جنگ کے گذشتہ تقریباً پانچ ماہ کے دوران امریکی حکمرانوں کی تمام تر سفارتی سرگرمیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ انہوں نے فلسطینیوں کی مبہم اور غیر یقینی ریاست کا تصور پیش کر کے اسرائیل کی ناجائز صیہونی رژیم کی بقا اور سلامتی کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔ دوسری طرف وہ چاہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دھیرے دھیرے مقبوضہ سرزمین کے حقیقی رہائشی فلسطینیوں پر مشتمل معاشرہ نابود ہو جائے اور ان کے مستقبل اور حق خود ارادیت کا مسئلہ بھی خود بخود حل ہو جائے اور یوں صیہونیزم اپنے دیرینہ مقصد کے حصول میں کامیاب ہو جائے۔ خود امریکہ نے بھی خطے میں یہی طریقہ کار اپنا رکھا ہے اور خطے کی اقوام کے حقیقی مطالبات اور خواہشات کو پس پشت ڈال کر ان کی لوٹ مار میں مصروف ہے۔

امریکہ بھی غاصب صیہونی رژیم کی طرح خطے میں ابھرنے والی ہر مزاحمتی تحریک کو غیر جمہوری اور غیر انسانی ہتھکنڈوں کے ذریعے کچل دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایسے میں امریکہ، برطانیہ اور غاصب صیہونی رژیم تمام تر جمہوری اقدار اور انسانی حقوق سے متعلق دعووں کو بھول جاتے ہیں اور انہیں پامال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگرچہ امریکہ، غاصب صیہونی رژیم اور ان کے کٹھ پتلی عرب حکمرانوں کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا منصوبہ ناکامی کا شکار ہوتا جا رہا ہے لیکن وہ غزہ اور خطے پر اپنا ناجائز اور غیر قانونی تسلط برقرار رکھنے پر بضد دکھائی دیتے ہیں۔ شاید رفح پر حملہ غزہ میں جنگ کا آخری مرحلہ ثابت نہ ہو لیکن غزہ، لبنان، یمن، عراق اور پورے خطے میں اسلامی مزاحمت اپنے نئے طرز جنگ اور مزاحمتی اقدامات کے ذریعے صیہونزم اور اس کے حامیوں کو ذلت آمیز شکست کا مزہ چکھانے کا عزم راسخ کئے ہوئے ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button