
اسرائیل اپنے قیدیوں کی رہائی کیبعد غزہ پر دوبارہ جنگ مسلط کر دیگا، اسماعیل ھنیہ
شیعہ نیوز: فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس” کے پولیٹیکل بیورو چیف "اسماعیل ھنیہ” نے کہا کہ سات اکتوبر کو آپریشن طوفان الاقصیٰ کے آغاز کا دن مسئلہ فلسطین کی تاریخ میں اہم موڑ تھا۔ کیونکہ استعماری ممالک اس کاز کی فراموشی کے درپے تھے، تاہم سات اکتوبر اس مسئلے کو عالمی توجہ ملنے کا سبب بنا۔ اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ اسرائیل کے جنگی جرائم کی وجہ سے اس کا ٹرائل بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے ہم جنگی اور سیاسی دو محاذوں پر مصروف عمل ہو چکے ہیں۔ مذاکرات کے آغاز سے ہم نے تین بنیادی چیزوں کے حصول کا تعین کیا، جس میں جنگ کا مکمل خاتمہ، غزہ کے عوام کی ثابت قدمی کو سیاسی نتائج میں بدلنا اور ان کو ہدف بنانے کے ہر منصوبے کو روکنا شامل ہے۔
اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ جنگ بندی اور غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلاء تک کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اس امر کی وضاحت کی کہ ہم اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے ایک اچھے معاہدے کے خواہاں ہیں۔ اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ حماس نے ان مذاکرات میں تھوڑی بہت لچک دکھائی ہے لیکن ابھی تک دشمن، جنگ بندی کے حوالے سے کوئی واضح ضمانت دینے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اپنے قیدیوں کی آزادی کی کوششوں میں ہے اور ان کی رہائی کے بعد غزہ کی پٹی پر نئے سرے سے اپنی قتل و غارت گری کا آغاز کر دے گا۔ انہوں نے کہا کہ دشمن غزہ سے اپنی فوجوں کے انخلاء کے حوالے سے نھی کوئی گارنٹی نہیں دے رہا بلکہ اس کے برعکس غزہ میں دوبارہ سے صیہونی فوج کی تعیناتی کے حوالے سے باتیں جاری ہیں۔
اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ ہم ایسے معاہدے کے خواہاں نہیں کہ جس کے نتیجے میں جنگ ختم نہ ہو سکے، مہاجرین اپنے گھروں میں نہ لوٹ سکیں اور دشمن غزہ سے باہر نہ نکلے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن ابھی تک فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں میں واپسی کے حوالے سے بھی کوئی وعدہ نہیں دے رہا۔ ہم مذاکرات عمل کے تسلسل کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن یہ مذاکرات اسرائیلی جارحیت کے اختتام پر مکمل ہونے چاہئیں۔ حماس کے پولیٹیکل بیورو چیف نے صیہونی رژیم کی کابینہ کو مذاکرات میں ناکامی کا سبب قرار دیا۔ اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ دشمن بغیر معاہدے اور اپنے تمام جرائم و نسل پرستانہ اقدامات کے تسلسل کے ساتھ اپنے قیدیوں کو آزاد نہیں کروا سکتا۔ لہٰذا اگر دشمن ہمارے ان واضح مطالبات کہ جس میں غزہ سے اسرائیل کا اخراج، جنگ کا خاتمہ اور مہاجرین کی واپسی جیسی تجاویز پر رضامند ہے تو ہم بھی معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔